مت لا زباں پہ گالی ہوگی زبان گندی
قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث سے متعلق اجلاس کے دوران جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئیں۔شور شرابا، سیٹیاں ، ہنگامہ آرائی ،کشیدگی ایک عرصہ سیپارلیمانی تاریخ کاحصہ رہا ہے لیکن اس دفعہ تاریخ کی بد ترین بد کلامی دیکھنے کو ملی۔ عوام کے سرمایہ سے تشکیل پانے والے ایوان کا مقصد فقط ملکی استحکام اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے غور و فکر اور قانون سازی ہے۔ یہ بڑا سانحہ ہے اور اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کے اس طرح کے واقعات کی کا کوئی انتظام نہیں۔سنا ہے معزز سپیکر صاحب نے ذمہ دار اراکین کے داخلہ پر پابندی لگا دی ہے لیکن یہ اقدامات کافی نہیں ہوں گے۔ مستقل بنیادوں پر اس کا تدارک ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہ بھی اعلی اخلاقیات اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ کا شمار مہذب معاشروں میں نہیں ہوتا۔ اس طرح کے رویے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیںجن کی جھلکیاں سڑکوں پر، بازاروں میں، ٹی وی چینلز پر، ٹی وی ڈراموں میں، دفاتر میں ہر روزکثرت سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔فضول بحث ، گالم گلوچ، ہاتھا پائی معمول بن چکا ہے۔سیاسی بحث و مباحثہ میں تو زبان و بیان کا رنگ تہذیب و شائستگی کی حدیں پھلانگتا جا رہا ہے۔ اب دلیل کی بجائے بات گالی اور تھپڑ تک چلی گئی ہے۔
شاعر نے اس صورت حال کا کیا خوب نقشہ کھینچا
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
اختلاف نہ کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی معیوب۔ ضروری ہے کہ اختلافات کا اظہار تہذیب کے دائرے میں رہ کر دلیل سے کیا جائے۔ لڑائی جھگڑا اور مغلظات اخلاقی برائیاں ہیں جن سے پرہیز کریں کیوں کہ یہ نہ صرف فرد کی شخصیت کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ قوم کے اجتماعی اخلاق میں بھی بگاڑپیدا ہوتا ہے۔ شاعر کی سادہ انداز میں نصیحت بہت قیمتی ہے۔
گالی کو جانتا ہے سارا جہان گندی
مت لا زباں پہ گالی ہو گی زباں گندی
پاکیزہ گفتگو کی اہمیت کا اندازہ کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے لگایا جا سکتا ہے۔ فرمان ذیشان ہے’’ تم لوگ جہنم سے بچنے کی کوشش کرو خواہ نصف کھجور کے ذریعے کرو۔ اگر یہ بھی نہیں پاتے تو پاکیزہ بات کے ذریعے جہنم سے بچنے کی کوشش کرو ‘‘ خوشی اور غصہ کے وقت جذبات پر قابو رکھنے کا سلیقہ اور انداز انسان کی اخلاقی عظمت کی دلیل ہے۔
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا ہو وہ کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
گالم گلوچ عدم برداشت کے کلچر کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے صوفی دانشور محبوب الٰہی حضرت خواج نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ کا نسخہ اکسیر ہے۔ سلطان المشائخ نے فرمایا’’آدمی میں ایک قلب ہوتا ہے اور ایک نفس۔ جب بھی کوئی آدمی ازراہ نفس پیش آئے تو اس سے از راہ قلب پیش آنا چاہیے یعنی نفس میں لڑائی جھگڑا شور وغوغا اور فتنہ فساد ہوتا ہے اور قلب میں سکون،رضا،خوشنودی اور لطافت۔ جب کوئی شخص از راہ نفس پیش آئے مگر جواب میں اس کے ساتھ از راہ قلب پیش آئیں تو نفس مغلوب ہو جاتا ہے۔ لیکن کوئی آگر دوسرے کے نفس کا مقابلہ نفس سے ہی کرتا ہے تو پھر لڑائی جھگڑے اور فتنے کی کوئی حد نہیں رہتی ‘‘
کہا گیا کہ گالی پنجاب کا کلچر ہے۔ پنجاب کا کلچر تو صوفیا کا کلچر ہے۔ پنجابی زبان تو بہت میٹھی ہے جو کانوں میں رس گھولتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ گالی کا آپ کی ثقافت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ آپ کی ذہنیت اور تربیت کو ظاہر کرتی ہے۔ مقام افسوس ہے کہ معاشرہ میں تعلیم تو عام ہو رہی ہے لیکن تربیت کا فقدان ہے۔ تربیت ایسی جنس نہیں جسے دکان سے لے آئیں۔ یہ سلیبس کی کتابیں پڑھنے سے نہیں آئے گا۔یہ والدین ،مخلص اساتذہ ، با عمل واعظ ، اعلی اخلاقی کتب کے مطالعہ اور صالحین کی مجلس سے ملتی ہے۔
میں نے پڑھا کہ مراکش میں ایک خانقاہ ہے جہاں تعلیم و تربیت کے لیے ہرآنے والے کا سرمنڈوا دیا جاتا ہے۔ اس کی ڈیوٹی دروازہ کے باہر لگتی ہے جہاں وہ مہمانوں کے جوتے سیدھے کرتا ہے تاکہ اس کی’’ میں ‘‘ مر جائے اورعاجزی انکساری پیدا ہو۔ کچھ عرصہ بعد اس کی ڈیوٹی کھانے کے برتن دھونے پر لگائی جاتی ہے۔ جب و ترقی کرکے کھانا تقسیم کرنے والوں کی صف میں آجاتا پھر جا کر اس کومرشد کا قرب اور ترقی نصیب ہوتی۔
حکومت سے گزارش ہے کہ فوری طور پر ماہرین نفسیات اور ماہرین معاشرتی علوم پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے جو اس معاشرتی ناسور کے تدارک کے لیے تجاویز دے اور پھر ان پر عمل کیا جائے۔