• news

غربت اپوزیشن کا ڈرامہ، غریب ڈھونڈکردکھائیں: پرویز خٹک

اسلام آباد (نامہ نگار + نوائے وقت رپورٹ)  وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ مہنگائی ہوگی تو ملک چلے گا اور مہنگائی نہیں بڑھے گی تو ملک رک جائے گا۔ قومی اسمبلی میں وزیر دفاع پرویز خٹک نے بجٹ بحث کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خالی سرکاری نوکریوں سے روز گار نہیں ملتا، سب سرکاری نوکری کرنا چاہتے ہیں کوئی محنت نہیں کرنا چاہتا۔ ہمارے صوبے میں کوئی کچا گھر دکھا دیں۔ مہنگائی پوری دنیا میں ہو رہی ہے۔غریب غریب اپوزیشن کا ڈرامہ ہے۔ پرویز خٹک کے غربت سے متعلق جملوں پر حکومتی ارکان نے قہقہے لگائے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک نے عجب منطق پیش کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی ہوگی تو ملک چلے گا، کارخانے چلیں گے اور زراعت ہوگی۔ مہنگائی نہیں بڑھے گی تو ملک رک جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک نوکریاں دینے سے نہیں چلتا، ہر کوئی سرکاری نوکری حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک نے اپوزیشن لیڈر کو مناظرے کا چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف اپنے کاموں کی فہرست لے آئیں، نون لیگ کی کارکردگی بہتر ہوتی تو عوام پنجاب میں مسترد نہ کرتے۔ اپوزیشن مہنگائی مہنگائی کر کے صرف ڈرامہ کر رہی ہے، ان کی اور ہماری کارکردگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انہوں نے کہا  کہ ایک مرتبہ پھر بھاری اکثریت سے عوام نے ہمیں منتخب کیا جو مخالفین کے منہ پر تھپڑ تھا۔ ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کی بنا پر عوام ان کے منہ پر تھپڑ رسید کرے گی۔ پیر کو قومی اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر امیر حیدر خان ہوتی کے بجٹ تقریر میں اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا کہ لوگوں نے ملک کے لئے جانیں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک بہترین بجٹ پیش ہوا ہے جو سارے ملک میں معاشی انقلاب لانے کا بجٹ ہے۔ انشاء اللہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے گی۔ انہوں نے ماضی میں خیبر پختونخوا کی حکومتوں اور اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ تو صرف مزے لوٹنے آئے تھے، غریب کے مسئلے کی انہیں خبر نہیں تھی۔ اب ہمارے پاس 25 ارب ڈالر موجود ہیں۔ الزام لگانے سے پہلے انہیں اپنے گریبان میں دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ روزگار کا مطلب صرف سرکاری نوکری نہیں ہے۔ ہمارے صوبے میں کسی کا کچا گھر نہیں ہے سب کے پاس گاڑیاں اور موٹر سائیکل ہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے غربت کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی مہنگائی ہوئی ہے۔ مہنگائی معاشی اور اقتصادی نظام کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں کے پی کے کی حد تک چیلنج کرتا ہوں کہ سروے کر لیں اور کہیں بھی مجھے غربت دکھا دیں، یہ صرف اپوزیشن کا ڈرامہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں خود کنسٹرکشن کا کاروبار کرتا ہوں، ہمیں کام کے لئے بندے ہی نہیں ملتے۔ اپوزیشن اس لئے اتنا جھوٹ بولتی ہے تاکہ یہ سچ نظر آئے۔ 2023 میں انہیں پتہ چلے گا کہ عمران خان کیا ہے۔ لنگر خانوں پر تنقید درست نہیں، مزدور کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ کہاں سے کھائیں گے اور کہاں سوئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ کے پی کے میں ہم اپنے دور حکومت میں ایک یونیورسٹی بھی نہیں بنا سکے۔ انہیں مناظرے کا چیلنج دیتا ہوں آکر دیکھ لیں آپ کی بیس سالہ کارکردگی اور میری پانچ سالہ کارکردگی کیسی ہے۔ پنجاب نے تو میاں شہباز شریف کو مسترد کیا ہے۔وفاقی وزیر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ کراچی پی ٹی آئی کا گڑھ ہے اور پیپلز پارٹی کراچی کے لوگوں کے ساتھ دشمنی کررہی ہے۔ عمر ایوب کا کہنا تھا کہ 2018 ء کے انتخابات سے سات ماہ پہلے معیشت آکسیجن پر تھی۔ ملک کا دیوالیہ نکل چکا تھا۔ ماضی کی حکومت نے باردوی سرنگوں سے سب کچھ تباہ کیا۔ (ن) لیگ باردوی سرنگوں کا نقشہ تک نہیں دے کر گئی۔ یہ لوگ کھا کر ڈکار بھی نہیں مارتے، اور سب کچھ ہڑپ کر لیں اور ہم سے کہتے ہیں کہ پوچھیں بھی نہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے معیشت کو نقصان پہنچایا۔ ہم نے مسلم لیگ ن کے دور کے مقابلہ میں گردشی قرضے کو کم کیا ہے۔ ان کے کان میں کسی نے پھونکا تو انہوں نے بجلی کے کارخانے لگا دیے۔ ان کی حکومت نے چار ہزار میگاواٹ رینیوایبل انرجی منصوبوں کو ختم کیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی یہ پروجیکٹ بحال کیے۔  ن لیگ کی حکومت کے دوران منصوبہ بندی کمیشن کی رپورٹ تھی کہ پیپلز پارٹی نے درست منصوبہ بندی نہیں کی۔ سی پیک کے باوجود ن لیگ دور میں سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ انہوں نے لوگوں کو نہ پانی دیا نہ سڑکیں دیں۔ عمر ایوب کاکہنا تھا کہ ن لیگ کی حکومت آئی تو کیپسٹی پیمنٹ کی 185 ارب سے بڑھ کر 468  پہنچ گئی۔ 1455 ارب کی بارودی سرنگیں انہوں نے ہی بچھائیں اور عمران خان نے 4000 ارب کا فائدہ دیا ہے۔ ن لیگ کی حکومت 23 ارب ڈالر تندور میں جھونک دیئے۔  پرچی پر آنے والوں کو کیا پتہ عوام کی کیا مشکلات ہیں۔ ڈیڑھ سو ارب روپے سندھ حکومت نے اقدامات کے لئے نہیں بانٹے۔ سندھ کے پاس پیسہ موجود ہے مگر خرچ نہیں کئے۔ اس سے بڑی نااہلی اور کیا ہو سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کو کیا لگے کراچی سے۔ وہاں کے لیے موجود پیسہ نہیں خرچ کر رہے۔ اگر ان کا دور اچھا تھا تو 2018ء میں 20 ارب ڈالر کا کرنٹ خسارہ کیوں ہوا؟۔ وزیراعظم کے اقدامات سے معاشی صورتحال بہتر ہونا شروع ہوئی۔ ہمارے پاس ڈالر چھاپنے کی مشین تو ہے نہیں اس لئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ اپوزیشن کے شور پر وزیر خزانہ نے کہا کہ میں نے بھی آپ کے لیڈرز کو سنا ہے۔ آپ بھی مجھے سنیں۔ فوڈ انفلیشن اس لیے ہوئی کہ آپ اس وقت خود امپورٹر بن گئے ہیں۔ ستر فیصد دالیں ہم امپورٹ کرتے ہیں۔ 10 سال میں زراعت پر کیوں خرچہ نہیں کیا۔ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر علی زیدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ فرزند زرداری نے تقریر میں کچھ کلمات انگریزی میں فرمائے ہیں۔ وہ انگریزی کس کو سنا رہے تھے۔ وزیراعظم کو پہلے دن سے تقریر نہیں کرنے دی گئی۔ بڑی مشکل سے ان کی تقریر  کو سنا۔ ایسا لگا جیسے 2018ء سے پہلے ملک میں دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ جیسے تمام ممبران 2018ء سے پہلے حاجی تھے۔ بے نظیر نے ابوظہی میں ایک آمر کے ساتھ ڈیل کی تھی۔ نوازشریف کیلئے ہیلی کاپٹر سے کھانے آتے تھے۔  مریم نواز کیلئے عوام کے پیسوں سے سوشل میڈیا سیل بنایا گیا۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ    2021-22پر بحث میں حصہ لیتے  ہوئے کہا کہ ہمیں مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ کس طرح قوم کو مشکلات سے نکال سکتے ہیں۔ قانون  سازی مل بیٹھ کر مشاورت کے ذریعے ہونی چاہیے اور ہمیں آئندہ عام انتخابات کو صاف شفاف اور منصفانہ بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے 5 سال پورے کرے۔ راجہ پرویز اشرف نے بجٹ 2021-22پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا کہ 21جون پیپلز پارٹی کی تاریخ میں اس لئے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا یوم پیدائش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معاملات کو ایک حد سے زیادہ آگے نہیں لے جانا چاہیے۔ یہ جمہوری اقدار کے منافی ہوگا۔ غصہ میں ہمیں وہ تمام حدود نہیں پھلانگنی چاہئیں جو ہم پھلانگ رہے ہیں۔ اگر ہم ایوان کے اندر ماحول کو ٹھیک رکھیں گے تو باہر بھی ماحول ٹھیک ہوگا۔ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ خواہ مخواہ کی بحث، غصہ اور الزام تراشیوں میں تین سال کا وقت ضائع کردیا گیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ٹیکسوں کی وصولیوں کے لئے لوگوں کی گرفتاریوں کے حوالے سے بجٹ میں موجود شق ختم کی جائے۔  صرف فاٹا کی بجائے پورے ملک کی سٹیل کی صنعتوں کو مراعات دی جائیں ورنہ 18 ہزار ٹن کا فرق پیدا ہو جائے گا۔ یونیورسٹیوں کے طلبا سراپا احتجاج ہیں اس حوالے سے ایک کمیٹی قائم کرکے ان کے تحفظات دور کئے جائیں۔  فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کی بچیاں بھی سراپا احتجاج ہیں ان کی مشکلات کا بھی ازالہ کیا جائے۔  انہوں نے مطالبہ کیا کہ میرے حلقہ گوجرخان میں پوٹھوہار یونیورسٹی کے لئے 800 کنال زمین موجود ہے۔ حکومت یونیورسٹی بنائے ہم آپ کو سلام پیش کریں گے۔ امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج وزیرستان، سکھر، سیالکوٹ کی نمائندگی نہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے معاملات پر حکومت کا کردار افسوسناک ہے۔ تمام صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ 18 ویں ترمیم کے تحت دیئے جائیں۔ بجلی کی آمدن کا خیبر پی کے کو حصہ نہیں دیا جا رہا۔ بدقسمتی سے ایک بار پھر دہشتگرد اکٹھے ہو رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی ہوئی تو حالات ادھر اور ادھر نقصان دہ ہوں گے۔ امریکہ کو اڈے نہ دینا بہت اچھا اقدام ہے۔

ای پیپر-دی نیشن