• news

لباس میں بے حیائی نہیں ہونی چاہئے‘ وزیراعظم کا بیان قابل مذمت: خواتین

لاہور (رفیعہ ناہید اکرام) پاکستانی خواتین کو لباس دھیان سے پہننا چاہئے، اسلام صرف عورت کے حجاب پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ حجاب کے احکامات مردوں کو عورتوں سے پہلے دئیے گئے۔ جنسی تشدد کی شکار عورت پر نامناسب لباس کا الزام دیں مگر ان کمسن بچوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو جنسی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اگر یہی بات ہے تو ریپ آرڈیننس کیوں لائے۔ جب عورتوں کے تحفظ اور ہراسمنٹ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں توپھر ڈریس پر بات کرنا مناسب نہیں۔ مختلف خواتین نے ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کہ ’’مرد کوئی روبوٹ نہیں، اگر عورت کپڑے کم پہنے گی تو اس کا اثر تو ہوگا‘‘ پر نوائے وقت سے گفتگو میں کیا۔ نئی خاتون محتسب پنجاب برائے انسداد جنسی ہراسانی نبیلہ خان نے کہا کہ بلاشبہ ملکی آئین اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت دیتا ہے مگر پاکستانی خواتین کو اپنے امیج، اخلاقیات، روایات اور حدود کا خیال رکھنا چاہئے۔ شلوار قمیض بہترین لباس ہے۔ تاہم ایسا لباس منتخب کرنا چاہئے جس میں بے حیائی بالکل نہ ہو۔ جماعت اسلامی کی رہنما سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ انسان اور حیوان میں بنیادی فرق ہی لباس کا ہے۔ تاہم سورہ نور میں پہلے مردوں کو ہی حکم دیا گیا ہے کہ خواتین سے پردے کے پیچھے سے خطاب کریں۔ نظریں نیچی کرنے اور اپنی حیا کی حفاظت کریں۔ عورتوں کو احکام بعد میں آتے ہیں۔گویا مرد اور عورت دونوںحجاب کے مخاطب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے وزیراعظم کی بات سے صرف یہ اختلاف ہے کہ اسلام صرف عورت کے لباس پر بات نہیں کرتا بلکہ حجاب کے جتنے احکام سورہ نور اور سورہ احزاب میں آئے ہیں انکا خطاب سب سے پہلے مردوں سے ہے۔ سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ربیعہ باجوہ نے کہاکہ یہ بات کرکے وزیراعظم نے گویا تسلیم کیا ہے کہ معاشرے میں ثقافتی گھٹن بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے مردوں کی فرسٹریشن عورتوں کے استحصال کا سبب بن رہی ہے اور اب بڑھتے بڑھتے انتہائی کم عمر بچوں تک بھی آگئی ہے۔ ان حالات میں تو اگر عورتوں کو گھروں میں زنجیریں بھی ڈال دیں تو بھی اس قسم کے واقعات سنائی دیتے رہیں گے۔ عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر ممتاز مغل نے کہاکہ چھوٹے بچے جس درندگی کا شکار ہورہے ہیں اس میں تو لباس کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتوں اور بچوں کے تحفظ کیلئے موجود قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ خواتین محاذ عمل کی رہنما فریدہ شہید نے کہا کہ مجرم کو پکڑنے کی بجائے جنسی تشدد کی شکار عورت پر الزام کیوں دے رہے ہیں۔ چند ماہ کے بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات  کا کپڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح کے بیانات سے خواتین اور بچے مزید خطرے میں پڑرہے ہیں۔ اگر یہی سوچ ہے تو پھر ریپ آرڈیننس کیوں لائے ہیں؟۔ 

لاہور (حافظ محمد عمران/ سپیشل رپورٹر) وزیراعظم عمران خان کے خواتین کے حوالے سے لباس پر بیان پر خواتین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان کہتی ہیں کہ اس حوالے سے ہمارے قوانین واضح ہیں کہ خواتین کا احترام دیکھنے والے کی ذمہ داری ہے۔ کسی مرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ لباس کو عورتوں پر تشدد اور جرائم کی وجہ قرار دے۔ وزیراعظم کا بیان غیر ذمہ دارانہ اور قابل مذمت ہے۔ اس بیان کا کوئی جواز نہیں ہے کیا وزیراعظم نہیں جانتے کہ وہ اس طرح کے بیانات سے مجرموں کو جواز فراہم کر رہے ہیں۔ رہنما مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب کہتی ہیں کہ جنسی زیادتی میں خواتین کا کوئی اقدام نہیں ہوتا بلکہ یہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کا ناپاک فیصلہ ہوتا ہے۔ گلوکارہ انیقہ علی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان ناصرف قابل مذمت ہے بلکہ ناکامی کا اعتراف ہے وہ خواتین پر تشدد کرنے والوں یا ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو روکنے میں ناکامی پر ایسا جواز پیش کر رہے ہیں جسے کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کیا دیہات میں ہونے والے جرائم کی وجہ بھی لباس ہے۔ رکن صوبائی اسمبلی حنا پرویز بٹ کہتی ہیں کہ وزیراعظم  عورتوں کے خلاف بیانات دیکر جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ درندوں کو سزا دینے کی بجائے عورتوں پر الزام لگانا شرمناک ہے۔ جو بچیاں پردے میں ہوتی ہیں، ان کے ساتھ زیادتی کا ذمہ دار کون ہے؟ افسوس وزیراعظم یہ نہیں جانتے کہ معاملے کی نزاکت کیا ہے۔ جب تک معاشرے میں ایسی ذہنیت والے مرد ہیں، عورتیں بالکل بھی محفوظ نہیں ٹینس سٹار عشنا سہیل کہتی ہیں کہ اگر صرف لباس کو بنیاد بنایا جائے تو کیا خواتین کھیلوں میں حصہ لینا چھوڑ دیں۔ کیا یہاں بھی لباس کو خواتین کے خلاف جرائم کی وجہ بنایا جائے گا۔ ہمیں مسائل حل کرنے کے بجائے عذر تلاش کرنے میں زیادہ دلچسپی رہتی ہے۔ ہاکی پلیئر رابعہ قادر کہتی ہیں کہ حکومت میں آنے سے پہلے وزیراعظم عمران خان کہا کرتے تھے کہ اگر پاکستان میں کوئی سکرٹ پہنے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا اب وہ لباس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔  حکومت کی ذمہ داری خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے اگر حکومت تحفظ کی فراہمی میں ناکام ہے تو پھر ایسے دلائل سے ایک بحث کا آغاز تو کیا جا سکتا ہے لیکن کوئی مثبت کام ممکن نہیں ہے۔ ایسے دلائل سے مجرموں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

ای پیپر-دی نیشن