ایران کا صدارتی انتخاب
ایران کے پونے چھ کروڑ انسانوں کا فیصلہ صرف 12 لوگ کرتے ہیں اْن 12 لوگوں کو بھی 2 انسان مقرر کرتے ہیں ایک ایرانی سپریم لیڈر دوسرا چیف جسٹس جبکہ سپریم لیڈر ہی چیف جسٹس سمیت ایرانی عسکری کمانڈر بھی تعینات کرتا ہے۔ یعنی ایران میں سپر پاور ایک ہی انسانی عہدہ ہے جو سپریم لیڈر کہلاتا ہے البتہ اس سپریم لیڈر کا انتخاب بھی 88 علماء دین کرتے ہیں اِن 88 ممبران کا انتخاب بھی 8 سال کیلئے ہوتا ہے۔ایران کے 18 جون کو ہونے والے حالیہ صدارتی انتخاب کے بعد ایشیا میں ایک نئی قد آور شخصیت کا اضافہ ہو چکا ہے جسے ایرانی سابق صدر حسن روحانی کے ساتھ ساتھ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا بھی جان نشین قرار دیا جا رہا ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک آخری اطلاعات کے مطابق ایرانی انتخابات میں صدر کے امیدوار ابراہیم رئیسی ساٹھ فیصد ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو چکے تھے جو ایران کے چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز تھے۔ 1980ء اور 90ء کی دہائی میں براعظم ایشیا دو بڑے انقلابات سے دوچار ہوا۔ پہلا انقلاب 1979ء میں رونما ہوا جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا جس کا فائدہ اْٹھاتے ہوئے افغانستان اور پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران میں آیت اللہ خمینی نے رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کا خاتمہ کر کے انقلاب ایران رونما کیا جو 41 سالوں سے قائم و دائم ہے۔ اور 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹنے سے امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور قرار پایا۔ یورپ اور ایشیا کے وسط میں موجود ایران ماضی میں فارس کے نام سے مشہور تھا جس کا دارالحکومت تہران اور سرکاری زبان فارسی ، عربی ہے۔ ایران رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے دوگنا ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے پاکستان اس سے تقریباً تین گنا بڑا ہے۔ ایران کی کل آبادی آٹھ کروڑ تیس لاکھ ہے جس میں بالغ ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ اسی لاکھ ہے۔ ایران کا کل رقبہ سولہ لاکھ اڑتالیس ہزار ایک سو پچانوے مربع کلو میٹر ہے۔ ایران کے لغوی معنی آریائوں کی زمین ہے۔ پاکستان سے تین گنا کم آبادی کے باوجود اس وقت ایران میں پانی کی کمی اور بیروزگاری دو بڑے مسائل ہیں ایران کی سرحدیں چھ اسلامی ملکوں سے منسلک ہیں جن میں پاکستان ، افغانستان ، ترکی ، عراق ، آرذربائی جان اور ترکمانستان شامل ہیں عیسائی ریاست آرمینیا کی سرحد بھی ایران سے ملتی ہے۔حالیہ ایرانی الیکشن میں 40 خواتین سمیت 590 ایرانی شہریوں نے صدارت کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کرائے تھے جن میں سے صرف 7 اْمیدواروں کو ایران کی نگہبان شوریٰ نے الیکشن لڑنے کی اجازت دی اْن سات میں سے بھی دو نے اپنے کاغذات واپس لے لیے باقی پانچ امیدواروں میں پہلے نمبر پر ابراہیم رئیسی ہیں جو ایرانی عدلیہ کے چیف جسٹس ہیں دوسرے نمبر پر سابق ایرانی کمانڈر محسن رضائی ، تیسرے نمبر پر سابق نائب وزیر خارجہ سعید جلیلی ، چوتھے نمبر پر ایرانی مرکزی بینک کے سابق گورنر محسن مہرال زادہ اور پانچویں نمبر پر معاشیات کے پروفیسر عبدالناصر ہیمانی تھے۔ایران میں سیاسی اور مذہبی طاقتوں کے توازن کا ایک سرکاری پیچیدہ سسٹم ہے جو 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد سے انقلاب ایران کے بانی آیت اللہ خمینی نے قائم کیا تھا جس میں تمام تر طاقت سپریم لیڈر کے عہدہ کو حاصل ہے جس پر اس وقت آیت اللہ خامنہ ای موجود ہیں 1989ء میں آیت اللہ خمینی کی وفات کے بعد آیت اللہ خامنہ ای اس عہدہ پر مقرر ہوئے تھے۔ ایران میں سپریم لیڈر سب سے بااختیار ہوتا ہے یہ کمانڈر انچیف بھی ہے جو فوجی کمانڈر مقرر کرتا ہے اور عدلیہ کے سربراہ کی تقرری کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ سپریم لیڈر ایرانی ریڈیو اور ٹی وی کے سربراہ بھی مقرر کرتا ہے اور نگہبان شوریٰ کے آدھے ممبران کے ساتھ ساتھ نماز جعمہ کے امام بھی تعینات کرتا ہے کیونکہ جمعہ کے خطبہ کی اصل اسلامی ذمہ داری حاکم وقت کی ہے جمعہ کا خطبہ حاکم وقت نے دینا ہوتا ہے۔ایرانی صدر کا عہدہ چار سال کیلئے ہے اور کوئی شخص تیسری بار صدارت کا الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ سابق ایرانی صدر حسن روحانی مسلسل دو بار بھاری اکثریت سے کامیاب ہو چکے ہیں۔ ایران میں صدارتی الیکشن لڑنے کیلئے نگہبان شوریٰ سے منظوری لینی ہوتی ہے ایران کی نگہبان شوریٰ 12 افراد پر مشتمل ہے جن میں سے چھ عالم دین کو سپریم لیڈر تعینات کرتا ہے اور باقی چھ قاضی ہوتے ہیں جن کی نامزدگی چیف جسٹس کرتا ہے یہ 12 لوگ چھ سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں جن میں سے چھ ممبر ہر تین سال بعد تبدیل ہو جاتے ہیں۔ایرانی پارلیمان کے 290 ارکان ہوتے ہیں جن کو عام انتخابات کے ذریعے چار سال کیلئے چْنا جاتا ہے تمام خارجہ پالیسی صدر دیکھتا ہے اور داخلہ پالیسی سپریم لیڈر کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ ایرانی پارلیمان قانون بنا سکتی ہے ، بجٹ تبدیل کر سکتی ہے ، صدر اور وزراء کا مواخذہ کر سکتی ہے اور اْنہیں عہدوں سے ہٹا بھی سکتی ہے لیکن ان تمام احکامات کیلئے اْسے نگہبان شوریٰ سے منظوری لینی ضروری ہے کیونکہ نگہبان شوریٰ پارلیمان سے منظور ہونے والے قوانین کو ختم کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے نگہبان شوریٰ وہی ہے جو بارہ ممبران پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور ایرانی سپریم لیڈر کا انتخاب کرنے کیلئے بھی الگ سے ایک مجلس خبرگان رہبری کے نام سے موجود ہے جس کے ممبران 88 عالم دین آٹھ سال کیلئے مقرر ہوتے ہیں جن کا آخری تقرر 2016 ء میں ہوا تھا یہ 88 لوگ خفیہ رائے شماری سے سپریم لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں۔ایران کے ساٹھ سالہ چیف جسٹس ابراہیم رئیسی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو چکے ہیں۔ جو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دست راست تصور کئیے جاتے ہیں کیوں کہ آیت اللہ خامنہ ای نے اْنہیں 2016ء میں ایران کے سب سے اہم مذہبی ادارے ’’ امام رضا فائونڈیشن ‘‘ کا انتظام سونپا تھا اِس ادارے کا اپنا بجٹ اربوں ڈالر ہے۔ابراہیم رئیسی سخت نظریات کے حامی قرار دئیے جاتے ہیں جنہوں نے ایرانی انقلاب کے بعد اپنے لیے عدلیہ کا شعبہ اختیار کیا اور لمبا عرصہ تک ایرانی پراسیکیوٹر رہے انقلاب ایران کے بعد یہ ایران کے اْس خصوصی کمیشن کا بھی حصہ تھے جس نے بڑے پیمانے پر ایران میں سیاسی قیدیوں کو پھانسی دی تھی جس کے بعد ابراہیم رئیسی پر امریکی پابندیاں بھی عائد کر دی گئی تھیں۔ اب ان کے عہد صدارت میں مذہبی شدت پسندی کے رجحان کو فروغ مل سکتا ہے اور یہ بازگشت بھی سنائی دیتی ہے کہ ایرانی صدارت کے بعد ایران کے اگلے سپریم لیڈر بھی ابراہیم رئیسی ہی ہو سکتے ہیں۔