بجٹ اور عدمِ برداشت۔قصوروار کون؟
بلوچستان اسمبلی میں فاضل ارکان نے جس رویے کا اظہار کیا اس سے لگا کہ جو کچھ قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوسرے اور تیسرے روز ہوا وہ ٹریلر تھااور یہ اصل فلم ہے ۔ قومی اسمبلی میں ارکان نے ایک دوسرے کو ننگی اور غلیظ گالیاں دیں، بجٹ دستاویز ات اور کتابیں ایک دوسرے پر ماری گئیں، سینیٹائزر بوتلیں چلائی گئیں، جس سے حکومتی ارکان ملیکہ بخاری اوراکرم چیمہ زخمی ہو گئے۔ سپیکر نے سات ارکان کا قومی اسمبلی میں داخلہ بند کر دیا۔تیسرے روز حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کے مابین مفاہمت سے یہ داخلہ کھول دیا گیا اور اسمبلی میں کارروائی اچھے انداز میں ہوئی۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو گرانے اور نمبر بنانے کی کوشش میں دنیا میں تماشا بن گئے آپ لوگوں کو عوام قانون سازی کے لیے اپنے سے بہتر سمجھ کر منتخب کرتے ہیں آپ میں سے کچھ پارلیمنٹ کے باہر" تنظیم سازی" اور پارلیمنٹ کے اندر غنڈہ گردی جیسی آئین سازی کریں گے تو کوئی عزت نہیں کمائیں گے۔ بلوچستان اسمبلی کے ارکان تو حدیں ہی پار کر گئے اپوزیشن کو انگلی لندن سے لگائی گئی یا کہیں اور سے، اسے اس راہ پر لگا دیا گیا یہ اسمبلی پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے ،اسمبلی ہال کے باہر اور اندر میدان جنگ بنا دیا گیا وزیراعلی پر جوتے اور گملے پھینکے گئے، گیٹ کو تالے لگا دیئے، گیٹ کو کھولنے کے لیے پولیس کی بکتر بندی گاڑی گیٹ سے ٹکرائی گئی فاضل ارکان پولیس کے بھی گلے پڑ گئے پولیس کو لاٹھی چارج کرنے پڑا۔اندر اجلاس اور باہر جنگ ہوتی رہی اس دھینگا مشتی میں خاتون رکن شکیلہ نوید سمیت چار اراکان زخمی ہو گئے، کئی کے کپڑے پھٹ گئے۔ مجھے یاد آیا کہ مشرقی پاکستان اسمبلی میں اجلاس کے دوران تشدد کرکے سپیکر شاہد علی پٹواری کو ہلاک کر دیا گیا تھا گویا ان دنوں بھی اسمبلی میں پٹواری موجود تھے۔ کھلاڑی اور اناڑی بھی کسی نہ کسی صورت موجود تھے .شاہد علی کی ہلاکت کے ذمہ دار وں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔قومی اسمبلی میں سب کچھ گنوا کے مفاہمت ہوگئی اور ایک دوسرے کی بات بغیر مداخلت اور شور شرابے سے سننے پر اتفاق کیا گیااسی روز اجلاس میں شہباز شریف اور بلاول کی تقریر خاموشی سے سنی حکومتی ارکان بولے تو شہباز شریف اور بلاول ایوان سے باہر چلے گئے۔ مفاہمت ؛ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ قارئین!موجودہ حکومت دو نعروں کے بل بوتے پر اقتدار میں آئی تھی،ایک احتساب اور دوسرا تبدیلی۔بائیس سال کے صبر آزما انتظار کے بعد جب 2018ء میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو ہمیں اس حکومت سے یہ توقع نہیں تھی کہ یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی،شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے۔مگر عمران خان صاحب کی ہمت دیکھ کر یہ اندازہ ضرور لگایا تھا کہ وہ کم از کم احتساب کا نعرہ شرمندۂ تعبیر کریں گے مگر شومئی قسمت کہ پچھلے تین سال میں کسی ایک محاذ پر بھی حکمران اپنی گرفت دکھانے میں ناکام رہے۔آج حالت یہ ہے کہ احتساب کے سبھی ملزمان ماسوائے مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف اور پیپلزپارٹی کے خورشیدشاہ کے باقی سبھی ملزمان ضمانتوں کے فوائد سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔دنیا کی تاریخ میں ایسے معجزات کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملے کہ پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت اور اومنی گروپ کی لوٹ مارکی وجہ سے ریڑھی بان اور فالودہ فروشوں تک کے اکائونٹ میں اربوں روپے برآمد ہوئے۔لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
قارئین! دوسری طرف میاں شریف خاندان کا کڑا احتساب کے نام سے مواخذہ شروع ہوا۔چند ایک کیسز میں کچھ لوگوں کو نام نہاد سزائیں بھی ہوئیں مگر پھر انہی لوگوں کو صرف پچاس روپے کے اشٹام پیپر پر گارنٹی لکھ کر ملک سے باہر علاج کیلئے بھجوا دیا جاتا ہے۔اور آج عمران خان اور ان کی پوری ٹیم یہ فرماتے ہیں کہ ہمیں غلط انفارمیشن اور میڈیکل رپورٹس دے کر میاں صاحب کو لندن بھجوایا گیا۔میرا اور بائیس کروڑ عوام کا وزیراعظم اور ان کی ٹیم سے ایک مؤدبانہ سوال ہے کہ کیا آپ کو اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ ایک ملزم جسے عدالت سے سزا ہو چکی ہے اس کو علاج کے لیے ملک سے باہر بھجوانا بذاتِ خود ایک جرم تھا ؟کیا دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی سزایافتہ مجرم کو بغرضِ علاج کسی دوسرے ملک بھجوانے کی روایت موجود ہے؟اگر اس کا جواب ’’نہیں ‘‘میں ہے تو پھر بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔بائیس کروڑ عوام کا رکھوالا وزیراعظم جب یہ قانون توڑے گا تو اسے سخت ترین سزا کا مستحق رہنا چاہیے۔