غذائی خود کفالت کیلئے ہنگامی بنیادوں پر زراعت کی ترقی ناگزیر
تجزیہ: محمد اکرم چوہدری
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں زرعی ملک ہونے کے باوجود ہر سال غذائی اجناس کی تجارت میں بڑے پیمانے پر تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک پاکستان غذائی طور پر خود کفیل نہیں ہوسکا اور حالت یہ ہے کہ گندم اور چینی سمیت دیگر غذائی اجناس امپورٹ کر رہا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنی اپنی باری کے لیے تو کا م کر رہے ہیں لیکن پاکستانیوں کی حالت زار پر توجہ نہیں دیتے۔ پاکستان کو غذائی اشیا کی تجارت میں کتنا خسارے کا سامنا ہے آئیے ایک نظر سرکاری اعداد و شمارپر ڈالتے ہیں۔ پاکستان کو رواں مالی سال 2020-21ء میں جولائی سے مئی (11ماہ) کے دوران غذائی اشیاء کی تجارت میں 5.74 کھرب روپے کا خسارہ ہوا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوراں پاکستان نے 6.3کھرب روپے کی غذائی اشیاء ایکسپورٹ کیں جبکہ اس کے مقابلے میں 12.07کھرب روپے کی اشیاء امپورٹ کی گئیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ مالی سال کی اتنی مدت کے دوران بھی پاکستان کوغذائی اشیاء کی تجارت میں 1.33کھرب روپے کا تجارتی خسارہ ہوا تھا۔ اس مدت میں پاکستان نے 6.73کھرب روپے کی غذائی اشیاء ایکسپورٹ کیں جبکہ اس کے مقابلے میں 7.71کھرب کی غذائی اشیاء امپورٹ کیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران پاکستان کی مجموعی ایکسپورٹ میں سے 2.97کھرب روپے کے چاول ایکسپورٹ کئے گئے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 7.02فیصد کم ہیں۔ 61.12ارب روپے کی مچھلی اور اس سے بنی مصنوعات ایکسپورٹ کئے گئے جو گزشتہ مالی سال کی اتنی مدت کے مقابلے میں 4.25فیصد کم ہیں۔ 65.05ارب روپے کے پھل ایکسپورٹ کئے گئے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 4.25فیصد زائد ہیں۔ 47.12ارب روپے کی سبزیاں ایکسپورٹ کی گئیں جو گزشتہ مالی سال کی اتنی مدت کے مقابلے میں 4.55فیصد زائد ہیں۔ دالوں کی ایکسپورٹ اس مالی سال صفر رہی اور گزشتہ مالی سال کے دوران بھی صفر رہی۔ اسی طرح رواں مالی سال میں آٹا اور چینی کی ایکسپورٹ بھی نہیں ہوئی۔ 4.9ارب روپے کا تمباکو ایکسپورٹ کیا گیا جو گزشتہ مالی سال کی اتنی مدت کے مقابلے میں 4.05فیصد کم ہے۔ 14.03ارب روپے کے آئل سیڈ، نٹس اینڈ کیرنلز ایکسپورٹ کئے گئے جو گزشتہ مالی سال کی اتنی مدت کے مقابلے میں 206فیصد زائد ہیں۔ 48.94ارب روپے کا گوشت اور اس سے تیار مصنوعات کی ایکسپورٹ کی گئی جو گزشتہ مالی سال کی اتنی مدت کے مقابلے میں11.92فیصد زائد ہے۔ جبکہ82.14ارب روپے کی دیگر غذائی اشیاء کی ایکسپورٹ کی گئی جو گزشتہ مالی سال کی اتنی مدت کے مقابلے میں11.06فیصد زائد ہے۔ اسی طرح رواں مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ میں پاکستان کی مجموعی غذائی اشیاء کی امپورٹ میں سے 28.13ارب روپے کا دودھ اور اس سے تیار اشیا امپورٹ کی گئیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 18.48فیصد زائد ہیں۔ 1.58کھرب روپے کی گندم امپورٹ کی گئی جو جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 100فیصد زائد ہے۔ 12.25ارب روپے کے ڈرائی فروٹس اینڈ نٹس امپورٹ کئے گئے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 169.02فیصد زائد ہیں۔ 86.03ارب روپے کی چائے امپورٹ کی گئی جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 15.48فیصد زائد ہے۔ 11.61ارب روپے کا سویا بین آئل امپورٹ کیا گیا جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 59.17فیصد زائد ہے۔ 3.83کھرب روپے کا پام آئل امپور ٹ کیا گیا جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 42.59فیصد زائد ہے۔ 20.82ارب روپے کی چینی امپورٹ کی گئی جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 4175.98فیصد زائد ہے۔ 99.24ارب روپے کی دالیں امپورٹ کی گئیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 17.82فیصد زائد ہے جبکہ 3.76کھرب روپے کی دیگر غذائی اشیاء امپورٹ کی گئیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 32.24فیصد زائد ہیں۔ ان اعدادو شمارکے بعد ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور پاکستان کو غذائی خود کفالت کے لیے زراعت کو ہنگامی بنیادوں پر ترقی دینا ہوگی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آنے والے سالوں میں پاکستان کو اس سے زیادہ غذائی اجناس کی تجارت میں خسارہ پہنچ سکتا ہے۔