بینظیر بھٹو شہید کے یوم پیدائش پر ملک بھر میں تقریبات
ندیم بسرا
nadeembasra@hotmail.com
اوور لائن
پاکستان میں کوئی بھی جمہوری حکومت اپنا دوسرا یا تیسرا بجٹ جب پیش کردیتی ہے تو سیاسی جماعتیں اور تجزیہ نگار نئے الیکشن کی باتیں شروع کردیتے ہیں۔یہ باتیں کرنا ایک رواج کاحصہ بن گیا ہے۔اس روایت کو آگے بڑھانے میں ہماری حزب اختلاف کی جماعتیں پیش پیش ہوتی ہیں۔پاکستان کی جمہوریت میں جہاں یہ باتیں نئی نہیں ہیں تو لہذا اس پر حکومت اور اپوزیشن کبھی متفق نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی نیا’’میثاق جمہوریت ‘‘آسکتا ہے کیونکہ آج کی مخالف جماعتیں کل اقتدار میں آسکتی ہیں۔گزشتہ دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا یوم پیدائش منایا گیا پیپلز پارٹی ایک تاریخی اور قربانیاں دینے والی جماعت ہے۔ذوالفقار علی بھٹو شہید تاریخ میں اپنی مثبت سوچ اور باکمال سیاستدان کے طور پر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔بینظیر بھٹو شہید کے یوم پیدائش پر ملک بھر میں تقریبات پر پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات چوہدری منور انجم، نوید چودھری کے پیغامات ملے ان سے بھی بات چیت ہوتی رہتی ہے۔یہ لوگ پیپلزپارٹی کی پہچان ہیں اور جماعت کو مضبوط کرنے میں ان کا کردار بھی بڑا اہم ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بینظیر بھٹو شہید نے آئین کی پاسداری، ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے آمریت کا ہمیشہ ڈٹ کے مقابلہ کیا اور پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اپنی جان قربان کردی بینظیر بھٹو شہید آج بھی پاکستانی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں اور اب بھاگ ڈور بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھوں میں ہیں اور شریک چیئر مین آصف علی زرداری کی کاوشیں بھی قابل ستائش ہیں۔مجھے یاد ہے کہ معمار نوائے وقت گروپ مجید نظامی مرحوم نے آصف علی زرداری کو "مرد حر" کا خطاب دیا تھااور یہ آصف علی زرداری تھے کہ انہوں نے بی بی کی شہادت کے بعد ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔پچھلے دنوں آصف علی زرداری لاہور آئے تو انہوں نے مختلف لوگوں سے ملاقاتین بھی کیں ،بالخصوص پنجاب کے سیاسی منظر نامے میں آصف علی زرداری اور پرویز الٰہی کی اچانک ملاقات نے بھونچال برپا کر دیا ہے،فریقین اس ملاقات کے حوالے سے لاکھ تاویلیں پیش کریں مگر سیاسی پنڈت اس بڑی سیاسی بیٹھک کو مستقبل کے انتخابی اتحادوں کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔لاہور کے سیاسی حلقوں میں افواہیں گرم رہیں کہ یہاں ملاقات ایک میڈیا ہاؤس کے مالک کا برین چائلڈ ہے۔قبل ازیں سپیکر پنجاب اسمبلی سے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف بھی ملے ، جسے شریف فیملی اور چودھری برادران کے درمیان ایک نئے تعلق کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔چودھری پرویز الٰہی پہلے ہی اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ ق لیگ صرف موجودہ دور حکومت تک پی ٹی آئی کی اتحادی ہے لہذا بلاول ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کو مذکورہ وجوہات کی بنا پر سیاسی حلقے بہت اہمیت دے رہے ہیں۔حکومتی ترجمانوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستانی سیاست کا رخ متعین کرنیوالے شہر لاہور میں اتنی بڑی ملاقات ہونے جا رہی ہے جس کی وجہ سے پنجاب حکومت کی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو افراتفری میں پریس کانفرنس کرنا پڑ گئی۔اطلاعات ہیں کہ سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی سنٹرل پنجاب کے چیف آرگنائزر راجہ پرویز اشرف کو بھی ایک روز قبل ہنگامی بنیادوں پر اسلام آباد سے بلاول ہاؤس لاہور طلب کیا گیا ہے،بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ پنجاب کے ایسے انتخابی حلقہ جات کی رپورٹس بھی ساتھ لے کر گئے ہیں جہاں سے پیپلز پارٹی آئندہ عام انتخابات میں اپنے مضبوط امیدوار میدان میں اتارنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری تنظیمی اور انتخابی امور پر الگ الگ حکمت عملی کیساتھ پنجاب اور آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں،واقفان حال کا کہنا ہے کہ آصف زرداری اپنے دورہ لاہور کے دوران اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کو دوبارہ مضبوط بنیادوں پر انتخابی سیاست میں سرگرم کرنے کیلئے تشریف لائے ہیں تاہم اہم سیاسی شخصیات اور خاندانوں کی پیپلز پارٹی میں دوبارہ شمولیت کو فی الحال بجٹ کے بعد تک محدود کر دیا گیا ہے،شاید یہی اندرونی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان نے تین روز قبل ہی اپنا شیڈول دورہ برطانیہ ملتوی کر دیا ہے۔آنیوالے دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں حکمران جماعت کو بڑے بڑے سر پرائز دینے کی بھر پور تیاری میں ہے ۔زرداری صاحب نے پنجاب میں صرف ایک ملاقات کر کے حکومتی جماعت اور اس کے ترجمانوں کو بہت بڑا سیاسی دھچکہ پہنچایا ہے۔پارلیمنٹ کے اندر چیرمین بلاول بھٹو،سینٹ میں یوسف رضا گیلانی اور پارلیمنٹ کے باہر آ صف علی زرداری جس طرح عمران حکومت کیخلاف سر گرم ہوچکے ہیں اور جس طرح ان کے ارکان اسمبلی اور سینئر ارکان،شیری رحمن،راجہ پرویز اشرف،فیصل کریم کنڈی،قمر زمان کائرہ،چودھری منظور،وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ ،ناصر شاہ اور دیگر سرگرم ہو چکے ہیں اس کے نتائج سیاسی پنڈتوں کی سوچ سے الگ ہو سکتے ہیں۔دوسری جانب دوروز قبل مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور اپوزیشن پنجاب اسمبلی ایف آئی اے میں پیش ہوئے اور تحقیقاتی ٹیم کو اپنے جوابات سے متاثر نہ کرسکے اب ایف آئی اے کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے تھے کیونکہ ان کے تسلی بخش جوابات کے باوجود انہیں گرفتار نہیں کرسکتی تھی اس کی وجہ ہائیکورٹ لاہور نے انہیں حفاظتی ضمانت جاری کررکھی تھی ان پر اربوں روپے کے الزامات پر انہیں وفاقی تحقیقاتی ادارہ نے انہیں طلب کیا تھا اور کارکن ان پر پھول نچھاور کررہے تھے اور ان کی گاڑی کو سلام کررہے تھے اور لفظی گولہ باری ان کے ترجمانوں نے خوب کی۔مسلم لیگ ن ایک سیاسی جماعت ہے اور ان کے کارکنوں کی اپنے لیڈرز سے وابستگی ایک فطری عمل ہے۔میں جب بھی مسلم لیگ ن کے باہمت لیڈر خواجہ عمران نذیر سے ملکی سیاست پر بات کرتا ہوں تو ان کے دلائل واقعی لاجواب کردیتے ہیں اس لئے کہ ان کی ٹریننگ زمانہ طالبعلمی میں ہوئی ہے اور یہ ان لیڈرز میں سے ہیں جو فوٹو سیشن کے لئے ریلیوں اور جلسوں میں نہیں آتے بلکہ اپنی جماعت کا مثبت نقطہ نظر پیش کرتے ہیں اس لئے ان کے حامی بھی کم نہیں اور مخالفین بھی کافی تعداد میں ہیں۔