سینٹ: تنخواہ پنشنز میں 20فیصد اضافہ،114بجٹ سفارت قومی اسمبلی کو ارسال
اسلا م آباد (وقائع نگار‘نمائندہ نوائے وقت) سینٹ اجلاس میں حکومتی رکن کی جانب سے سندھ کا بجٹ زیر بحث لانے پر پیپلزپارٹی کی خواتین اراکین کی ہنگامہ آرائی۔ شور شرابے کے باعث ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا رہا۔ اپوزیشن نے حکومتی بنچوں کے رویے خلاف احتجاجاً ایوان سے واک آئوٹ کیا۔ ایوان بالا کے اجلاس میں حکومتی و اپوزیشن اراکین کی جانب سے گدھوں ، گھوڑوں، کتوں اور بچھوئوں کے حوالہ جات کی گونج سنائی دی۔ قائد حزب اختلاف نے سینیٹر پلوشہ خان کو پارٹی کا موقف موثر انداز میں پیش کرنے اور حکومتی بنچوں کو ٹف ٹائم دینے پر نشست پر جاکر شاباش دی۔ جس کے جواب میں حکومتی بنچوں نے بھی ان کا جواب دینا شروع کردیا۔ شور شرابے اور ہنگامے کے باعث ایوان میں کان پڑی آواز تک نہ سنائی دی اور پورا ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا رہا۔ جس کے بعد اپوزیشن نے حکومتی اراکین کے رویے کے خلاف احتجاجاً سینٹ کی کارروائی سے واک آئوٹ کیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان حکومتی بنچوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک کو کتے کاٹ رہے ہیں ان کی ویکسین کا کوئی حساب دینے والا نہیں ہے۔ یہ کارخانوں کی بجائے لنگر خانے کھول رہے ہیں۔ ریاست مدینہ جیسے مقدس نام پر ڈاکے پہ ڈاکے ڈالے جارہے ہیں۔ چوروں کی تجوریاں بھری جارہی ہیں۔ آٹا، چینی اور چاول ناپید ہو گئے ہیں۔ اگر فیض ملا ہے تو وہ بھی بنی گالہ کو ملا ہے۔ علاوہ ازیں جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے سفارشات ایوان میں پیش کیںجن کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی گئی۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ صحت کے شعبے پر ود ہولڈنگ ٹیکس 8 فیصد سے 3 فیصد کیا جائے۔ اشیاء خوردنی پر جی ایس ٹی کا استثنیٰ بحال کیا جانا چاہیے۔ آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت نیا این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کیا جائے۔ سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ اور پنشنز میں اضافہ 20 فیصد کیا جائے اور سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال مقرر کی جائے۔ بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی لائی جائے۔ پٹرولیم لیوی میں مزید اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایف بی آر میں اصلاحات کی جائیں۔ لوگوں کو گرفتار کرنے کا ایف بی آر کا اختیار ختم کیا جائے۔ فلور ملز کی صنعت سے متعلق تین ٹیکس لاگو نہ کئے جائیں۔ سرکاری ملازمین کے علاج معالجے، مختلف الائونسز اور پراویڈنٹ اور پنشن فنڈز پر ٹیکس واپس لیا جانا چاہیے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں کے لئے بجٹ دگنا کیا جائے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لئے کم از کم تنخواہ 25 ہزار روپے ہونی چاہیے۔ کرونا وباء کے دوران خدمات سر انجام دینے والے نیم طبی عملے اور نرسوں کے لئے خصوصی پے پیکج اور تربیت کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔ آئی ٹی انڈسٹری کے لئے ٹیکس کا استثنیٰ واپس لینے کے معاملے کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔ 800 سی سی کی گاڑیوں پر 30 ہزار روپے لائف ٹائم ٹوکن ٹیکس کا نفاذ اور وصولی واپس لی جائے۔ خدمات سیلز ٹیکس 16 فیصد سے کم کر کے 5فیصد کیا جائے۔ پٹرولیم، خام تیل کی مصنوعات، کا استثنیٰ بحال کیا جائے۔ پرانی گاڑیوں کے لئے نئے سپیئر پارٹس کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کم کی جائے۔ 18 سے 25 سال کے نوجوانوں کو کاروبار کے لئے ٹیکسوں اور قرضوں میں مزید سہولیات دی جائیں۔ اشیائے خوردنی پر جی ایس ٹی 17 فیصد سے کم کر کے 8.5 فیصد کیا جاناچاہیے۔ غیر رجسٹرڈ پولٹری فیڈ کے تمام سامان پر 10 سے 17 فیصد کا اضافہ واپس لیا جانا چاہیے۔ سونے پر 17 فیصد کے سیلز ٹیکس کے نفاذ واپس لیا جائے۔ کنولا کے بیج پر سیلز ٹیکس کے نفاذ کو واپس لیا جانا چاہیے۔ دودھ کے پاؤڈر یا دودھ کی مصنوعات کی قیمت پر لیوی یا ٹیکس عائد نہیں ہونا چاہیے۔ ریئل اسٹیٹ کے شعبے کے لئے سیکشن 37 میں مجوزہ ترمیم واپس لی جائے۔ ویلڈنگ الیکٹروڈز انڈسٹری کو ففتھ شیڈول میں شامل کیا جائے۔ پولیسٹر فائبر پر ڈیوٹی 7 فیصد سے 4 فیصد کی جائے۔ سینیٹ نے سفارش کی ہے کہ کوئٹہ مغربی بائی پاس کے لئے مختص رقم کم از کم 2 ارب 50 کروڑ تک بڑھائی جائے۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے لئے مختص رقم دو ارب تک بڑھائی جائے۔ بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے وافر فنڈز مختص کئے جائیں۔ نوشہرہ سے تحصیل درگئی مالاکنڈ کے لئے مسافر ٹرین سروس بحال کی جائے۔ لواری ٹنل سے چترال شہر تک سڑک کی تکمیل کی جائے۔ کوئٹہ میں میٹرو بس منصوبہ شروع کیا جائے اور پی ایس ڈی پی میں وافر فنڈز مختص کئے جائیں۔ کراچی، پشاور ایم ایل ون منصوبہ ترجیحی بنیاد پر مکمل کیا جائے۔ سینٹ سے فنانس بل 2021-22 ء کیلئے 114 سفارشات قومی اسمبلی و بھجوا دی گئی ہیں۔ سینٹ (ایوان بالا) میں گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے سے متعلق عالمی عدالت انصاف نظرثانی و غورو فکر بل پیش کر دیا گیا۔ وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے بل ایوان میں پیش کیا۔ اپوزیشن کی جانب سے عالمی عدالت انصاف نظرثانی و غورو فکر بل کی مخالفت کی گئی۔ چیئرمین سینٹ نے بل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سپرد کر دیا۔