متنازعہ قوانین: سپیکر نے حکومتی، اپوزیشن ارکان کی کمیٹی بنادی
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت +نامہ نگار) سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے متنازع قانون سازی کے معاملے پر 14 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی۔ سپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں کی مشاورت سے متنازع قانون سازی کے معاملے پر 14 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔کمیٹی میں وفاقی وزراء پرویز خٹک، اسد عمر، طارق بشیر چیمہ اور فہمیدہ مرزا سمیت وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان، خالد مقبول صدیقی اور خالد مگسی شامل ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے کمیٹی میں شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق، رانا ثناء اللہ، شاہدہ اختر علی، نوید قمر، شازیہ مری اور آغا حسن بلوچ شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق پارلیمانی کمیٹی اپنے ٹی او آرز کو حتمی شکل دے گی اور اپنی سفارشات سپیکر قومی اسمبلی کو پیش کرے گی۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث 10ویں روز بھی جا رہی۔ اجلاس میں پینل آ ف چیئر کے رکن امجد علی خان نے وزارت خزانہ و متعلقہ محکموں کے افسران کی ایوان میں عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا اور انکے خلاف کارروائی کی ہدایت کی۔ اجلاس کے دوران جمیعت علما ء اسلام کے رکن مولانا عبد الشکور کی جانب سے کورم کی نشاندہی پر اجلاس کورم مکمل ہونے تک موخر کیا گیا۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس پینل آف چیئر کے رکن امجد علی خان کی صدارت میں ہوا۔ بجٹ پر عام بحث 10ویں روز بھی جاری رہی۔ بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ اس ایوان نے اسلامی سزاؤں کی اور خاتم النبیین کی قرارداد پاس کی۔ یہ ملک سدا رہنے کیلئے بنا ہے۔ موٹرویز کا کریڈٹ میاں صاحب کو جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کو قادیانیت کے خلاف کام کرنے کا کریڈٹ جاتا ہے۔ اگر بھٹو نے غریب کی زبان کو آواز دی تو عمران خان یوتھ کو سیاست میں لائے۔ عمران خان نے احتساب کا پیغام دیا۔ ہم نے اپنے ہی لوگوں کیخلاف احتساب شروع کرایا۔ احساس پروگرام کے ذریعے کوشش کر رہے ہیں کہ مزدور کو کھانا مل سکے۔ اس ملک نے ایدھی بھی پیدا کیا اور ارفع کریم بھی پیدا کی۔ اس ملک نے بے نظیر بھی پیدا کی۔ احتساب کو کبھی کمپرومائز نہ کریں۔ اپنی لیڈر شپ سے سوال کریں۔ اس پاکستان کو مضبوط کریں گے۔ مہمند ڈیم کا کام شروع ہو چکا، میں نہیں کہتا ہم نے شروع کیا یہ ایک لمبا منصوبہ ہے۔ یہ ڈیم پی ٹی آئی نہیں پاکستان کے کھیتوں کو سیراب کریگا۔ جب تک دنیا ہے تب تک کلمہ طیبہ رہے گا۔ پاکستان زندہ رہے گا۔ قائد اعظم نے پاکستان کیلئے مدنی ریاست کا خواب دیکھا۔ جب بچوں کی ریپ کی آواز آئی تب اس ایوان میں سرعام پھانسی کی قرارداد آئی۔ عمل چاہے جب بھی ہو، میں ہر بجٹ سپیچ میں رونا روتا ہوں سودی نظام سے نکالو۔ سروسز، انڈسٹری کا ٹارگٹ حاصل کیا۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کا خون نہ چوسا گیا ہو۔ یہ خون چوس اور ہڈی توڑ بجٹ ہے۔ یہ زکوٹا جن کا بنایا ہوا بجٹ ہے۔ پیٹرول بجٹ کے اگلے دن ہی مہنگا ہو گیا۔ میں مانتی ہوں عمران خان کرپٹ نہیں ہے، قانون سازی کو بلڈوز کر کے انتخابی اصلاحات نہیں ہوتیں۔ پاکستان کے ووٹ پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دیں گے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بھی مسئلہ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن سے اس کی خودمختاری چھینی گئی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کا دفتر استعمال کر کے نواز شریف کو اس کی جماعت کی صدارت سے ہٹایا گیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دفتر کو استعمال کر کے آر ٹی ایس کو بٹھا کر مسلم لیگ (ن) کو ہرایا گیا اور سلیکٹڈ، جھوٹے نالائق اور نااہل کرپٹ ٹولے کو مسلط کیا گیا۔ ایک کروڑ نوکری، پچاس لاکھ گھر سب بھول گئے۔کشمیر کا سودا ہو گیا۔ وزیراعظم ہاؤس سے گورنر ہاؤس تک بنے گی یونیورسٹی۔ ٹیکس نہیں لگاؤں گا۔ 350 ڈیم بناؤں گا اور پورا پاکستان بجلی استعمال کرے گا۔ آئی ایم ایف نہیں جاؤں گا، سب بھول گئے۔ سب بھول جائیں گے لیکن ہم بھولنے نہیں دیں گے۔ زکوٹا جن نے عمران خان کو کہا کہ مجھے کام بتائو میں کیا کروں، کس کو کھائوں،تو پھر زکوٹا جن ساڑھے چار سو ارب کی چینی ،122ارب روپے کی ایل این جی اور 250ارب روپے کا آ ٹا، 1200ارب روپے کی ویکسین ، 23فارن فنڈنگ اکائونٹ سے زکوۃ کے پیسے کھا گئے ہیں۔ عمران خان کرپٹ نہیں یہ سب زکوٹا جن کا کمال ہے۔ حنا ربانی کھر نے کہاکہ موجودہ حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ اس حکومت نے عوام سے صرف جھوٹ بولا ہے۔ پالیسی یہ نہیں ہوتی کہ آپ غربت میں اضافہ کر کے لنگر خانے کھول دیں۔ نئے ٹیکسز میں سے 70 فیصد ٹیکس براہ راست عوام کو متاثر کریں گے۔ چور چور کے نعروں سے ملکی ترقی نہیں ہوتی۔ وزیر خارجہ کو بڑی مشکل ہوتی ہے کہ وہ اسامہ بن لادن کا بتا سکیں کہ وہ شہید ہے یا نہیں ہے۔ القاعدہ نے اور اسکے رہنما نے پاکستان کے جوانوں کو مارا۔ ہمارے جوان شہید ہیں یا اسامہ شہید ہے۔ سیمی بخاری نے کہاکہ عمران خان کی پوری دنیا میں پہچان ہے۔ عمران خان کی کامیاب پالیسی کی وجہ سے معیشت ترقی کی طرف گامزن ہے۔ عمران خان نے کوئی کیمپ آفس نہیں بنایا۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کئی سالوں سے بند تھی وہ چل پڑی ہے۔ کرونا پر بڑی اچھی طرح قابو پایا جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی ہے۔ عمران خان مبارکباد کے مستحق ہیں، عوام پرور بجٹ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے کہاکہ میں بجٹ سیشن میں ہنگامہ آرائی اور کتابوں کی بے حرمتی کی مذمت کرتا ہوں۔ سینئر سیاست دان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا تقدس پامال نہ کرنے دے۔ آج ان گیلریز میں کم سے کم فنانس سیکرٹری و ایف بی آر کے بندے ہونے چاہئیں۔ پاکستان کی معیشت کا فارن پالیسی پر انحصار ہے۔ دوسرے ممالک اپنی خارجہ پالیسی کو چلاتے ہیں۔ اس وقت ہمیں اختیاط سے چلنا ہوگا۔ فیٹف، آئی ایم ایف ہمارے لیے چیلنج ہیں جو عالمی زیر اثر ہیں۔ پینل آف چیئرپرسن کے رکن امجد نیازی نے سرکاری اداروں کے افسران کی ایوان میں عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ تقاریر میں سب وزارتوں کے نمائندے ہوتے ہیں۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے پوچھا جائے اور وجوہات بتائی جائیں، جو نہیں آئے انکے خلاف کارروائی کی جائے۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ بجٹ ایک فریب اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔ یہ تین سال میں تیرہ ہزار ارب روپے قرضوں میں اضافہ کیا ہے۔ قرضے ہر حکومت واپس کرتی ہے۔ حکومت نے 10 کلومیٹر تک کی موٹروے تک نہیں بنائی۔ ڈاکٹر وقار مسعود جعلی اعدادوشمار بناتا ہے۔ سپیکر نے کرسی کے ساتھ سمجھوتہ کیا۔ چھے دفعہ بجلی مہنگی کی لیکن گردشی قرضے 2600ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ لاہور کی زرعی زمینیں لوگوں سے چھین رہے ہیں۔ لوگوں سے سستی زمینیں لے رہے ہیں۔ اس سے وہاں خون خرابہ ہوگا۔ وہاں نئے 9 ملک ریاض پیدا کررہے ہیں۔ ڈیموں کے منصوبے گزشتہ دور میں شروع ہوئے۔ مہمند ڈیم کا ٹھیکہ ہم نے 280 ارب روپے میں فائنل کیا۔ انہوں نے وہی منصوبہ رزاق دائود کو 320 ارب روپے میں دے دیا۔ پی ٹی آئی کے احمد حسن ڈیہر نے کہا کہ عمران خان کی ٹیم میں بھی کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں۔ عمران خان اکیلا چل رہا۔ اسے اللہ کی مدد حاصل ہے۔ مینگو پراسسنگ پلانٹ کراچی کے بجائے ملتان میں لگایا جائے۔ پاکستان کا سب سے بہترین آم ملتان اور رحیم یار خان میں ہوتا ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کو بھی بتایا، افسران براہ راست رشوت وصول کر رہے ہیں۔ وزیر اعلی کے نوٹس میں بھی لایا گیا مگر مافیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ پیر فضل حسین جیلانی نے کہا کہ جب تک ہم زندہ ہیں ختم نبوت پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ اس ایوان کی چھت پر اللہ تعالٰی کے 99 نام ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ اس چھت کے نیچے کھڑے ہو کر جھوٹ بولتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کچھ دن سچ بولا کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر آئی ایم ایف کے کہنے پر مہنگا نہیں کیا گیا تھا۔ خان صاحب آپ نے اللہ کو جوب دینا ہے۔ عمران خان غریبوں سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورے کریں۔ پارلیمانی سیکرٹری شندانہ گلزار نے کہا کہ اپوزیشن آج ہمیں نہ سمجھائے بلکہ اپنی اپنی پارٹی کو سمجھائیں۔ اگر آپکے پاس بجٹ پر بات کرنے کیلئے کچھ نہیں تو گھر بیٹھیں، اس ایوان کو تماشہ مت بنائیں۔ یہ سینما حال نہیں قومی اسمبلی کا ایوان ہے۔ اس ملک کو یہ قیمہ بنا کر گئے۔ اس کو ٹھیک کرتے کرتے ہماری کمر ٹوٹ رہی ہے۔ جو بات کرنی ہے حقائق پر کریں۔ مسلم لیگ (ن) کے ریاض احمد پیرزادہ نے کہا کہ زراعت کیلئے بجٹ میں کھ نہیں رکھا گیا۔ بہاولپور میں ریسرچ سینٹر بند کئے جا رہے ہیں، کاٹن کا ریسرچ سینٹر امریکیوں کو دے دیا گیا۔ آئین پاکستان میں گنجائش ہی نہیں کہ مزید صوبے بن سکیں۔ اس لئے نئے صوبے بنانے کا جھانسہ نہ دیا جائے۔ چولستان اور گوجرانوالہ میں لوگوں سے زمین چھین کر ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔ دو کروڑ روپے ریٹ والی زمین زبردستی لوگوں سے دو لاکھ روپے میں لے رہے ہیں۔ لوگوں کی زمینوں سے اداروں کے قبضے چھڑائے جائیں۔ قومی اسمبلی خزانہ کمیٹی کے چیئرمین اور پی ٹی آئی کے فیض اللہ خان کموکا نے کہا کہ فنانس بل کو قومی اسمبلی خزانہ کمیٹی سے محروم رکھا گیا ہے یہ بل خزانہ کمیٹی میں نہیں جاتا۔ ریونیو سے متعلق ریفارمز کی ضرورت ہے، اداروں میں بالخصوص پارلیمانی ریفارمز کی ضرورت ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے رکن مفتی عبد الشکور نے کورم کی نشاندہی کردی، انہوں نے کہاکہ حکومت کے ارکان کو زیادہ وقت دیا جا رہا۔ پینل آف چیئرپرسن کے رکن امجد علی نے کورم پورا ہونے تک اجلاس کی کارروائی موخر کردی۔