نئے ٹیکسز: عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت
حکومت نے موبائل فون کالز سمیت کئی دیگر ٹیکسز کا نفاذ کردیا ہے ۔ قبل ازیں قومی بجٹ پیش کرنے کے موقع پر بھی موبائل فونز پر ٹیکس کی تجویز تھی تاہم عوامی دبائو پر فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا لیکن اب ہر قسم کے دبائو کو مسترد کرتے ہوئے حکومت نے 5 منٹ سے زائد کی موبائل فون کال پر 75 پیسے ٹیکس لگا دیا ہے جبکہ زیورات پر 17 فیصد جی ایس ٹی ہوگا، اسی طرح وفاق کی دیکھا دیکھی پنجاب میں بھی متعدد نئے ٹیکس ’’متعارف‘‘ کرائے اور نافذ کردیئے گئے ہیں جن میں میٹرو پولیٹن حدود میں 10 افراد تک کی کمپنی اور کاروبار پر 6 ہزار، اس سے کم پر 4 ہزار، ہول سیلرز، ریٹیلرز سمیت دیگر کاروبار پر 2 ہزار سالانہ ٹیکس ہوگا۔ اسی طرح ٹیکس نیٹ میں آنے والے افراد پر 200 روپے پروفیشنل ٹیکس بھی عائد کردیا گیا ہے۔ جبکہ کریڈٹ کارڈ کے علاوہ موبائل واٹس ایپ ادائیگی اور کیو آر سکریننگ کے ذریعے ریسٹورنٹس بل ادا کرنے والوں پر 5 فیصد سیلز ٹیکس نافذ ہوگا۔
ریاست بلاشبہ محصولات کی بنیاد پر ہی اپنے معاملات چلاتی ہے۔ذرائع آمدن کے علاوہ عوامی ٹیکسوں پر بھی ہوتا ہے تاہم حکومت کو چاہئے کہ ٹیکسوں کے نفاذ میںعوام کی معاشی حالت ،انفرادی و اجتماعی کاروبار اور سرمایہ کاری کو بھی مدنظر رکھا جائے کیونکہ بالواسطہ ٹیکسوں میں عوام ہی براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ اس لئے ان میں زیادہ سے زیادہ کمی ہونی چاہئے اور ایسے متفرق اور مختلف النوع ٹیکس ختم کرکے عوام کوریلیف دیا جاسکتا ہے جبکہ بعض ٹیکسوں میں کمی کرکے کاروبار اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔ ایک طرف تو حکومت آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نہ ماننے کے دعوے کررہی ہے اوردوسری طرف عوام کا گلا گھونٹا جارہا ہے جبکہ عوام حکومت سے ریلیف کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔