• news

قومی اسمبلی: تمام مطالبات زرکثرت رائے سے منظور،اپوریشن کی تحاریک مسترد

اسلام آباد (نا مہ نگار+ خصوصی نامہ نگار) قومی اسمبلی نے وزارت اطلاعات و نشریات، وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق،قومی اسمبلی نے وزارت صحت و قومی خدمات، وزارت ریلویز کے مطالبات زر کی منظوری دے دی ہے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل اپوزیشن کی قانونی ٹیم اور الیکشن کمشن سے ملاقات کریں گے۔ وزیراعظم نے اپوزیشن سے ایک بار پھر رابطے کی ہدایت کی ہے۔ اپوزیشن کی تجاویز پر مبنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کریں گے۔جبکہ ان وزارتوں کے بجٹ پر اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریکوں کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا، پیرکو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سرابرہی میں ہوا، اجلاس میں وزارت اطلاعات و نشریات کے 10ارب 7کروڑ 40 لاکھ 57ہزار روپے کے 3مطالبات زر کی منظوری دے دی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی 107کٹوتی کی تحریکیں کثرت رائے سے مسترد کردیں۔ اس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 95تحریکیں پیش کی گئیں۔ شوکت ترین نے متفرق اخراجات پورے کرنے کے لئے 6ارب 41کروڑ 70لاکھ روپے کا مطالبہ زر پیش کیا۔ اس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 6 تحریکیں پیش کی گئیں۔ شوکت ترین نے وزارت کے ترقیاتی اخراجات پورے کرنے کے لئے 90کروڑ 20لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 6 تحریکیں پیش کی گئیں۔ سپیکر نے کٹوتی کی تحریکیں ایوان میں پیش کیں جسے کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا اور مطالبات زر کی ایوان نے منظوری دے دی۔  علاوہ ازیں قومی اسمبلی اجلاس میں وزارت ریلوے کے 2 مطالبات زر پر اپوزیشن کی کٹوتی کی 111 تحاریک مسترد کر دی گئیں۔ وزارت ریلوے کے 72 ارب 30 کروڑ روپے کے مطالبات زر منظور کر لئے گئے۔قومی اسمبلی نے وزارت صحت و قومی خدمات کے مجموعی طور پر 49 ارب 79 کروڑ 65 لاکھ 6 ہزار کے دو مطالبات زر کی منظوری دے دی ہے۔ جبکہ اپوزیشن کی طرف سے کٹوتی کی تحاریک مسترد کر دی گئیں۔ پیر کو قومی اسمبلی میں پارلیمانی سیکرٹری زین قریشی نے وزارت صحت و قومی خدمات کے مجموعی طور پر 49 ارب 79 کروڑ 65 لاکھ 6 ہزار کے دو مطالبات زر یکے بعد دیگرے ایوان میں پیش کئے جن پر اپوزیشن کی طرف سے 175 کٹوتی کی تحاریک پیش کی گئیں۔ پارلیمانی سیکرٹری صحت ڈاکٹر نوشین حامد نے کٹوتی کی تحاریک پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا سندھ میں اب تک جتنے لوگوں کو بھی ویکسین لگی ہے وہ وفاقی حکومت کی طرف سے فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 192 ارب روپے کی ویکسین خرید چکے ہیں۔ بجٹ میں1.1 ارب ڈالر ویکسین کے لئے مزید بھی مختص کئے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اپنی ویکسین بننی شروع ہو گئی ہے جو سنگل ڈوز ہے۔ رواں ماہ اس کی 9 لاکھ خوراکیں تیار کی گئی ہیں جبکہ اگلے مہینے30 لاکھ خوراکیں تیار کی جائیں گی۔پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر نے کہا کہ اس ملک کا بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، آٹے کی قیمت میں کمی نہیں آئی۔  رکن قومی اسمبلی کمال الدین نے کہا کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو گندم کی فراہمی پر پابندی ہے۔ سید حسین طارق نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ زرعی ٹیوب ویلوں کے لئے بجلی کے نرخ کم کئے جائیں جبکہ کھادوں پر سبسڈی دی جائے۔ ڈاکٹر شہناز بلوچ نے کہا کہ زرعی تعلیم میں تحقیق کے لئے مراعات اور ترغیبات دینا ہوں گی۔  رکن قومی اسمبلی سید جاوید علی شاہ نے کہا کہ معیشت صنعت سے نہیں بلکہ زراعت سے چلتی ہے۔ ساجد مہدی نے کہا کہ 73 سالوں میں ہم معیاری بیج پیدا نہ کر سکے۔ ملکی سطح پر کیڑے مار ادویات نہیں بنتیں توجہ دی جائے۔ شگفتہ جمانی نے کہا کہ بجٹ 2022 میں زرعی شعبہ کے لئے مختص کردہ رقوم کا حجم بہت کم ہے۔ مفتی عبدالشکور نے کہا کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے نئے ڈیموں کی تعمیر ضروری ہے۔ زاہد اکرم درانی نے کہا کہ چشمہ لیفٹ کینال کے منصوبہ کو مکمل کرکے ہم زرعی خود کفالت کی منزل جلد حاصل کر سکتے ہیں۔ محسن داوڑ نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع میں پہلے آٹے کا کوٹہ ہوتا تھا جسے اب کم کردیا گیا ہے۔ رکن قومی سمبلی مریم اورنگزیب نے کہا کہ 121 پروڈیوسر  کام کرتے ہیں۔ ایک سال میں ایک بھی پروڈکشن نہیں کی۔ پی ٹی وی کے لئے پاکستان فلم و کلچر پالیسی کے لئے فنڈز نہیں رکھے گئے۔ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری، رومینہ خورشید عالم، عبدالاکبر چترالی، ناز بلوچ، شاہدہ اختر علی، آغا رفیع اللہ اور محسن داوڑ نے کٹوتی کی تحریکوں پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزارت اطلاعات اور اس کے ماتحت اداروں کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق سید فخر امام نے کہا ہے کہ زراعت کے حوالے سے حکومتی سطح پر پہلی مرتبہ واضح تبدیلی آئی ہے۔ زراعت حکومت کی ترجیح ہے۔ نئے سال کے وفاقی بجٹ میں زراعت کے لئے 25 ارب روپے فوری طور پر دیئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زرعی تعلیم کا نصاب عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے جب تک ہم اسے عالمی معیار کے مطابق نہیں بناتے ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس وقت ہم زراعت میں ایم ایس سیز اور پی ایچ ڈیز تو تیار کر رہے ہیں لیکن اس کے تناسب سے ہماری پیداوار نہیں بڑھ رہی ہے۔ نئے اور جدید ترین تقاضوں کے مطابق زرعی نصاب کی تیاری کے لئے ہمیں کمیشن بنانا ہوگا۔ 

ای پیپر-دی نیشن