مغرب کا رویہ متعصب ، پاکستان میں جرائم کو بڑھا کر پیش کرتا ہے
تجزیہ:محمد اکرم چودھری
مغرب کا رویہ پاکستان کے بارے میں متعصب ہے، جرائم دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن مغربی میڈیا پاکستان میں ہونے والے جرائم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ پاکستان کے لوگ پرامن، مہمان نواز، محبت کرنے والے ہیں۔ پاکستانیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے ستر ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ کھربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کیا لیکن ان تمام قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے مغربی میڈیا اور مخصوص ممالک آج بھی پاکستان کے حوالے سے منفی پراپیگنڈا کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ دنیا کو پرامن بنانے کے لیے پاکستان نے کئی سال دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ آج دنیا میں کہیں بھی امن ہے تو اس میں پاکستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان قربانیوں کے باوجود مغربی میڈیا پاکستان کی ساکھ کو خراب کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل رینجرز سندھ میجر جنرل افتخار حسن چودھری نے مغرب کے دوہرے معیار کو اعداد و شمار کے ساتھ بے نقاب کرتے ہوئے اس مشکل موضوع پر ذمہ داری سے بات کرتے ہوئے پاکستان کا موقف پیش کیا ہے۔ ڈی جی رینجرز سندھ کہتے ہیں کہ "کوئی نہیں جانتا کہ لندن میں تیزاب پھینکنے کے آٹھ سو واقعات ہوئے۔ پاکستان میں ایسے صرف تین واقعات ہوئے۔ ایک پر فلم بنی اور فلم بنانے والی خاتون شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ بھی مل گیا"۔ ڈی جی رینجرز سندھ نے دنیا کے سامنے حقائق رکھے ہیں۔ ایسے واقعات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن جب کبھی پاکستان میں ایسا ناخوشگوار واقعہ ہوتا ہے تو اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شاید یہاں کوئی اور مخلوق رہتی ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دنیا کو پاکستان سے متنفر کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے اور جو لوگ بہک کر ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جس سے دنیا میں ملک کی نیک نامی پر حرف آتا ہے۔ ایسی فلمز میں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ایسا ہوا ہے لیکن دانستہ یہ نہیں بتایا جاتا کہ لندن میں تیزاب پھینکنے کے آٹھ سو واقعات ہوئے ہیں۔ لندن میں چاقو سے حملے کے دس ہزار کیسز ہوئے ہیں، نیو یارک میں ایک سال کے دوران سولہ سے زائد ڈکیتیاں ہوئی ہیں ان اعدادوشمار کے باوجود غیر محفوظ اور برا بھلا بھی ہمیں کہا جائے گا، امن کا دشمن بھی ہمیں سمجھا جائے گا۔ حال ہی میں کینیڈا میں جس انداز میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اگر ایسا واقعہ پاکستان میں ہوتا تو مغربی میڈیا میں طوفان برپا ہوتا۔ جہاں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے وہاں سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پاکستان میں ہو جائے تو سب انصاف پسند، امن پسند اور انسانیت سے محبت یاد آ جاتی ہے۔ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کی گردنیں کٹ رہی ہیں لیکن کوئی بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کو بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو بہتر بنانے اور جھوٹے بیانیے کا جواب دینے کے لیے اعدادوشمار دنیا کے سامنے رکھنے چاہئیں۔ جذباتی تقاریر کے بجائے جرائم کی شرح اور تفصیلات لوگوں کے سامنے رکھنے کی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل افتخار حسن چوہدری نے بروقت بات کی ہے۔ انہوں نے اپنے شہریوں کو اعتماد دینے کی کوشش کی ہے۔ جرائم کسی بھی ملک میں ہوں کسی بھی وقت ہوں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی لیکن کسی ایک ملک کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی اب ختم ہونی چاہیے۔