کشمیری نوجوان شہید: اے پی سی ناکامی پر مودی نے ڈرون ڈرامہ رچا یا
سرینگر (نوائے وقت رپورٹ، این این آئی) بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں بربریت جاری ہے۔ قابض فوج نے سرچ آپریشن کے دوران ایک اور کشمیری نوجوان کو شہید کر دیا۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق نوجوان کو سری نگر کے علاقے پارم پورہ میں سرچ آپریشن کے دوران شہید کیا گیا۔ چند نوجوانوں کو گرفتار بھی کر لیا۔ کشمیریوں نے احتجاج کیا۔ علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کر دی گئی۔ دو روز میں شہداء کی تعداد 2 ہو گئی ہے۔ تنازعہ کشمیر پر آل پارٹیز کانفرنس میں ناکامی کے بعد مودی سرکار بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی۔ اجیت دوول نے ڈرون حملے کا ڈرامہ رچا دیا۔ آخر کب تک اپنے ہی فوجیوں اور لوگوں کو مارا جاتا رہے گا، بھارتی عوام بھی مودی سرکار سے سوالات پو چھنے لگی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف آف ڈیفنس سٹاف بپن راوت اور بھارتی ائیرچیف کی چپقلش اور اختیار کی جنگ، نتیجہ آئی اے ایف سینٹر پر ڈرون حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیری بچوں پر پیلٹ گن کا استعمال بند کرے اور بچوں کو کسی بھی طرح سے سکیورٹی فورسز سے منسلک کرنے کی کوشش نہ کرے۔ یہ ریمارکس سلامتی کونسل میں بچوں اور مسلح تصادم سے متعلق اپنی تازہ رپورٹ پر کھلی بحث کے دوران دیئے۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں جیسے افغانستان، شام اور کانگو میں گزشتہ سال تقریباً 19 ہزار 300 نوجوانوں کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا گیا۔ انتونیو گوتریس نے کہا کہ جنگ کے دوران بچوں کے حقوق کو نظر انداز کرنا حیران کن اور دل دہلا دینے والا ہے۔ سکولوں اور ہسپتالوں کو حملوں کے لیے، لوٹ مار کے لیے تباہ کیا جاتا ہے یا فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت کے بارے میں اس رپورٹ کے ایک باب میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال مقبوضہ علاقے میں کل 39 بچے (33 لڑکے، 6 لڑکیاں) تشدد سے متاثر ہوئے۔ ان میں سے 9 شہید اور30 معذور ہوئے۔ پیلٹ گنوں سے کم از کم 11 بچے زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ میں و کشمیر میں بچوں کے خلاف سنگین خلاف ورزیوں سے پریشان ہوں اوربھارتی حکومت سے بچوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ انہوں نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ بچوں کے خلاف پیلٹ گن کے استعمال کو ختم کرے۔ اپنے خصوصی نمائندے کے ساتھ پاکستان حکومت کی شمولیت کا خیرمقدم کرتا ہوں تاکہ بچوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کو فروغ دیا جاسکے۔