سیاسی اتحاد کی ضرورت!!!
پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ سیاسی عدم استحکام بھی ہے۔ عدم استحکام اس اعتبار سے ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ملکی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اپنے سیاسی مفادات کی حفاظت کے لیے کام کر رہی ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے وزراء اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں میں ماحول کو خراب رکھتے ہیں۔
اپوزیشن کے کردار کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ ایوان کی کارروائی ایسی نہ ہو جس سے ملک و قوم کا فائدہ ہو سکے۔ جب سے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آئی ہے اسمبلیوں کا حال دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے۔ یہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں انہیں توقعات اور امیدوں کے ساتھ ایوان میں بھیجا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے اسمبلیوں میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے، لعن طعن کرنے اور الزامات پر ہی زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔ آج کی اپوزیشن کل تک حکومت میں تھی اور ان حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ملک معاشی طور پر کمزور ہوتا رہا لیکن چند خاندان مسلسل امیر ہوتے رہے، ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا گیا جو آج شور مچا رہے ہیں وہ اس وقت مال بنانے میں لگے رہے۔ آج ملکی دفاع کو تو کسی قسم کے خطرات لاحق نہیں ہیں افواجِ پاکستان ملک کے چپے چپے کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، پاکستان ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے، پاکستان کا ہر فوجی ملک کا ہر شہری دفاع وطن پر ہر وقت جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ کمزور معیشت ہے۔ ورثے میں ملی کمزور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف نے مشکل فیصلے کیے ہیں۔ یہ حقیقی ظور پر امتحان کا وقت ہے اگر حکومت منصوبہ بندی کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو کم از کم ملکی معیشت ضرور مضبوط ہو جائے گی۔ اس مشکل وقت میں پاکستان کے عام آدمی کو بھی تکلیف برداشت کرنا پڑے گی۔ مشکلات اٹھانا پڑیں گی، عام آدمی کو یہ بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ اس نے ادھار یا قرض پر چلنا ہے یا پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے۔ گوکہ حکومت کے وزرائ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ مشکل وقت گذر چکا ہے لیکن ایسا نہیں ہے پاکستان کو کئی مشکلات کا سامنا ہے بالخصوص خطے کی بدلتی صورتحال اور بھارت کی طرف سے ہونے والی جھوٹی کارروائیوں کے بعد ہمیں کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ آنے والے دن کتنے مشکل ہو سکتے ہیں۔ فیٹیف کی صورت میں ایک تلوار ہم پر لٹک رہی ہے یہ تلوار گرتی ہے تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ مسائل میں کس حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایک طرف کمزور معیشت کا چیلنج درپیش ہے تو دوسری طرف ازلی دشمن کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اس وقت سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ سے دنیا کو سیاسی اتحاد کا پیغام جانے کی ضرورت ہے۔ بھارتی فضائیہ کی عمارت پر ہونے والے ڈرون حملوں کے بعد پاکستان پر الزام عائد کرنے کی کوشش کی گئی ہے کتنے ہی سیاستدان ہیں جنہوں نے اس کا جواب دیا ہے۔ کیا یہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اردگرد ہونے والے واقعات پر نگاہ رکھے اور ملکی مفاد میں سیاسی اختلافات کو بھلا کر پاکستان کی سلامتی اور بقاء کو اہمیت دیتے ہوئے مثبت طرز عمل اختیار کرے۔ حکومت کوئی بھی ہو اگر ریاست ترقی کرتی ہے تو سب کا فائدہ ہے۔ ریاست کی ترقی اور خوشحالی سب سے اہم ہے۔ اپوزیشن کا کردار حکومت سے بھی زیادہ اہم ہوتا ہے کیونکہ اپوزیشن ناصرف حکومتی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس کے ساتھ بہتر تجاویز سے رہنمائی بھی کرتی ہے۔ یہ ملک جتنا پاکستان تحریکِ انصاف کا ہے اتنا ہی مسلم لیگ اور اس کے سب دھڑوں، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام، اے این پی، ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا ہے۔ ان جماعتوں کو مل کر ملکی مسائل حل کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ اس ملک کے عوام نے مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کے لیے بہت محنت کی ہے، بہت قربانیاں دی ہیں، ووٹرز دھکے کھا کھا کر تنگ آ گئے ہیں اب انہیں کوئی سہولت بھی ملنی چاہیے حکومت مختلف منصوبوں ہے ذریعے کم آمدنی والے افراد تک پہنچنے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر یا اتنی بڑی آبادی میں ایسے منصوبوں سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ مہنگائی کبھی کم نہیں ہوتی چیزوں کی قیمتیں بڑھ جائیں تو ان کا کم ہونا ممکن نہیں ہوتا جس حد تک اور جس تیزی سے مہنگائی اس دور میں بڑھی ہے قیمتوں کا ماضی کی سطح پر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس مسئلے کا صرف ایک بہتر حل ہے اور وہ یہ کہ عام آدمی کی قوت خرید میں اضافہ کیا جائے، روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں، لوگوں کے لیے زندگی آسان بنائی جائے، مہنگائی میں کمی کے دعوؤں یا اس حوالے سے ہونے والی بحث ولپر وقت ضائع کرنے کے بجائے قوت خرید اور نئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر وقت لگایا جائے، بات چیت کی جائے، اچھی اور تعمیری سوچ رکھنے والے افراد کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ملک کی خدمت کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے لوگ آج بھی ملکی خدمت کے جذبے سے سرشاد ہیں۔ کوئی اچھا کام کرنے والوں کو موقع دینے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ ہر جگہ وہ لوگ بیٹھے ہیں جو یا تو انجانے خوف کا شکار ہیں یا پھر احساس کمتری میں مبتلا ہیں وہ کسی بہتر شخص کو اوپر آنے ہی نہیں دینا چاہتے۔ ان تمام کاموں کے لیے سیاسی استحکام اور سیاسی اتحاد کی فضاء کا ہونا ضروری ہے اور یہ ماحول بنانے کی ذمہ داری حکومت اور اپوزیشن دونوں پر عائد ہوتی ہے بلکہ حکومت پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے سیاسی بیانات کے بجائے تعمیری گفتگو کریں تو ناصرف مسائل حل ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ عوامی سطح پر بھی ایک مثبت ماحول پیدا ہو گا۔ وطن سے محبت کا پیغام جائے اور اتفاق میں برکت ہے ایسے ہی نہیں کہا گیا۔ کاش کہ ہمارے سیاستدان اتفاق میں برکت ہے کا عملی مظاہرہ کریں۔