’’اب نہیں تو کبھی نہیں‘‘
پنجاب حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ منظور کروا لیا ہے اس بجٹ میں 560 ارب روپے کا ترقیاتی پروگرام رکھا گیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ سے پنجاب کے تمام اضلاع میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے علاوہ بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ان ترقیاتی سکیموں کے اعلان کیلئے آئندہ دو روز کے اندر پورے پنجاب کے دورے پر نکلیں گے جہاں وہ منظور کی گئی ترقیاتی سکیموں کا اعلان کرنے کے ساتھ کئی منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ اپوزیشن اور غیرجانبدار حلقوں کی طرف سے اس ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد کے حوالے سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی گزشتہ تین سال کی کارکردگی اور کام کرنے کی رفتار کو دیکھا جائے تو یہ اعتراضات درست محسوس ہوتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ 560 ارب کے ترقیاتی پروگرام پر بروقت عملدرآمد حکومت اور انکی موجودہ مشینری کے بس کی بات نہیں پھر حکومت کو اسی مشینری کے اندر سے ہونے والی سازشوں اور جوڑ توڑ کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ سارا کھیل وزیراعلیٰ عثمان بزدار سمجھ چکے ہیں۔ وہ یہ بات جان گئے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے وژن کے مطابق صوبے کے عوام کو ریلیف کیسے دیا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی وہ جان چکے ہیں کہ 560 ارب کے ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد کیلئے انہیں مخلص دیانتدار محنتی بیوروکریسی کی ضرورت ہے وہ ایسی انتظامی مشینری بنانے کیلئے تو نکل رہے ہیں جو ان کی پارٹی کے سربراہ وزیراعظم عمران خان اور انکے اپنے وژن سے آگاہی رکھتی ہواور حقیقی معنوں میں عوام کے خدمت گار بن کر کام کرنا چاہتے ہوں اسی پلاننگ کی بنیاد پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ہر ضلع میں کمشنر ڈپٹی کمشنرز ڈی پی اوز آر پی اوز سی پی اوز محکموں کے سیکرٹریز کی مختلف غیرجانبدار اداروں سے جن میں حساس ادارے بھی شامل ہیں سے سکریننگ کروائی ہے جس کی بنیاد پر وزیراعلیٰ بزدار ایسے تمام بڑے بیوروکریٹس کو عہدوں سے الگ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں جن کی شہرت داغدار ہے یا ان میں انتظامی صلاحیت کی کمی ہے وہ ایسے کسی بیوروکریٹ کی پنجاب میں تعیناتی نہیں چاہتے جو پاکستان تحریک انصاف کے مفادات کیخلاف کام کررہا ہو یا اس کی ہمدردیاں کسی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ ہوں۔ ہماری اطلاعات کیمطابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پہلے مرحلے میں جن اداروں کے سیکرٹریز کو عہدوں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ مومن آغا سیکرٹری سروسز صائمہ سید سیکرٹری کوآپریٹو احمد رضا سرور سیکرٹری خوراک شہریار سلطان، سیکرٹری ہائوسنگ نصراللہ، سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ نبیل اعوان جن پر آمدن سے زائد اثاثہ جات اور کرپشن کی دو انکوائریز بھی نیب میں زیرالتواء ہیں۔ سیکرٹری ٹرانسپورٹ علی مرتضیٰ جن کو تبدیل کرکے پنجاب میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ تعینات کیا جائیگا۔
کمشنر لاہور کیپٹن (ر) عثمان ہیلتھ میں واپس تعیناتی کیلئے کوشاں ہیں مگر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ان کی لاہور میں بطور کمشنر کارکردگی سے انتہائی مطمئن ہیں۔ سیکرٹری ایکسائز وقاص کو مالی سال میں ٹیکس ٹارگٹ پورا کرنے پر صوبے کی اعلیٰ شخصیت کی جانب سے شاباش دی گئی ہے۔ اس لئے انکی تبدیلی کے امکانات کم ہیں۔ حال ہی میں سیکرٹری لوکل گورنمنٹ تعینات ہونے والے نور الامین مینگل نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں بلدیاتی انتخابات کا روڈ میپ مکمل کرلیا ہے۔ نور الامین مینگل کی تعیناتی کے بعد سے لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ وزیراعلیٰ کے وژن سہولیات آپکی دہلیز پر کے وژن پر نمایاں بہتری آئی ہے۔
تبدیلی کے ریڈار پر کمشنر فیصل آباد ثاقب منان کمشنر ڈی جی خان ڈاکٹر ارشاد بھی تبدیلی کے مراحل میں ہیں مگر گورنر چودھری سرور ان کا تبادلہ رکوانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ کمشنر ملتان احمد جاوید قاضی کمشنر سرگودھا فرح مسعود کو تبدیل کیا جائیگا جبکہ ساہیوال میں بھی نئے کمشنر تعینات کئے جائیں گے۔ ڈپٹی کمشنر فیصل آباد محمد علی جو وزیراعظم عمران خا ن کے پی ایس او بھی خدمات انجام دے چکے ہیں کو بھی تبدیل کردیا جائیگا۔ ڈی سی ننکانہ راجہ منصور، ڈی سی چنیوٹ، ڈی سی جہلم رائو پرویز کو تبدیل جبکہ ڈی سی حافظ آباد، نارووال، اوکاڑہ، خوشاب5 خالی سیٹوں پر نئے افسران بطور ڈپٹی کمشنر تعینات کئے جائینگے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے بیوروکریسی میں ردوبدل سے قبل ایوان وزیراعلیٰ میں انتہائی قابل اور ایماندار ٹیم کا انتخاب کیا ہے جس میں انکے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید جو ٹیم کیپٹن ہیں کے علاوہ انکے پرسنل سٹاف آفیسر حیدر علی قابل ذکر ہیں جو وزیراعلیٰ کے وژن اور پی ٹی آئی کے منشور کی کامیابی کیلئے کوشاں ہیں۔ حیدر علی اراکین اسمبلی اور وزیراعلیٰ کے درمیان پل کا کردار بھی ادا کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے اس فیصلے سے انکی ڈائریکشن اور ارادوں کا مکمل اظہار ہوتا ہے کہ وہ پنجاب کے عوام کو کیا دینا چاہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کے موجودہ دور کا جو نیا سال شروع ہونے کو ہے اسے اگلے الیکشن کی تیاری کا سال ہی کہا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور ان کی ٹیم کو بخوبی اندازہ ہے کہ اگر چوتھے سال کے اندر وہ اپنے ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد نہ کرسکے تو پانچویں سال میں ان کیلئے بہت سی مشکلات کا سامنا تو کرنا ہی ہوگا مگر عوام کے پاس جانے کیلئے انکے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں ہوگا۔ ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد کیلئے وسائل کی فراہمی بھی ایک بڑا سوال ہے۔ حکومت اپنے اقتدار کے چوتھے سال میں نئے ٹیکس بھی نہیں لگا سکتی۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسز قیمتوں میں اضافے کا باعث بھی بنتے ہیں جبکہ عوام مہنگائی ، بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے پہلے ہی ناراض ہیں۔ موجودہ بجٹ میں حکومت نے عوام کی ناراضگی کو دور کرنے کیلئے ہی یہ بڑا ترقیاتی پروگرام دیا ہے ۔ ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد سے معاشی سرگرمیاں تیز ہونگی لوگوں کو روزگار ملے گا ، روپیہ گردش میں ہوگا تو معیشت چلے گی اور غربت کا خاتمہ بھی ہوگا مگر یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب سرکاری مشینری دیانتداری سے حکومت کے منصوبوں پر عملدرآمد کروا رہی ہوحکومت کے پاس عوام میں اپنی ل اکھ کو بہتر بنانے کا یہ آخری موقع ہے۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی یہ جانتے ہیں کہ ’’اب نہیں تو کبھی نہیں‘‘اس وقت حکومت کا کوئی بھی غلط فیصلہ اقربا پروری سفارش یا چمک کی بنیاد پر تعیناتیاں کی گئیں تو ان کا خمیازہ پی ٹی آئی کو اگلے الیکشن میں بھگتنا پڑے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کو ریلیف میں اضافہ اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے والی بیوروکریسی کا انتخاب کرنے کیلئے کوشاں ہیں گڈ لک بزدار۔