" ایک روحانی سفر "
جون کا ایک دھوپ بھرا دن جب ہمارا قافلہ لاہور سے حیرتوں اور کیفیتوں بھرے سفر پرروانہ ہوا ۔ قافلہ میں میرے علاوہ المصطفیٰ آئی ہسپتال کے ایچ او ڈی ۔ پروفیسر ڈاکٹر ناصر چوہدری ۔ تجمل گرمانی ۔ محترمہ نصرت سلیم ۔ نواز کھرل اور دوسرے افراد شامل تھے۔ ہماری منزل دریائے چناب پر آباد گجرات شہر کا نواحی قصبہ ’’کیرانوالہ‘‘ تھی ۔ لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ گجرات پہنچ کر شاہین چوک فلائی اوور سے دائیں جانب ایک سڑک سرگودھا کی جانب روانہ ہوتی ہے۔ جسے ڈنگہ روڈ کہا جاتا ہے۔ سر سبز کھیتوں میں گھری اس سڑک پر پنتالیس منٹ کے سفر کے بعد قصبہ منگووال اڈہ سے ایک چھوٹی سڑک قریبی گاؤں کیرانوالہ سیداں پہنچ جاتی ہے۔ فطرت کی آغوش میں آباد اس سادہ سے گاؤں کیرانوالہ پہنچے تو ایک جہان حیرت ہمارا منتظر تھا۔ کیرانوالہ کی وجہ شہر ت یہاں سنگ سیف سے تعمیر ہونے والی شاندار اور پُرشکوہ ’’مسجد پاک و گھہ شریف‘‘ ہے۔ جسے دیکھ کر عقل دنگ اور زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ فن تعمیر کی عظیم شاہکار یہ مسجد مستقبل قریب میں اسلامی دنیا کے عجائبات میں شامل ہوگی ۔ اس منفرد روحانی مرکز کی سحر انگیز فضا میں ہمارے میزبان اور اس تاریخی مسجد کے بانی ’’صاحبزادہ ڈاکٹر فرخ حفیظ ‘‘کے جانشیں ’’صاحبزادہ احسن حفیظ ‘‘اور ان کی ٹیم کی طرف سے دی گئی بریفنگ سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق مسجد پاک وگھہ شریف کے بارے میں روایت مشہور ہے کہ ساڑھے تین سو سال پہلے معروف روحانی بزرگ’’ حضرت میاں نور محمد چنابی‘‘ کو اس جگہ حضور ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ اس مقدس و متبرک مقام کو زیارت گاہ کہا جاتا ہے اور یہاں زائرین نوافل ادا کر کے من کی مرادیں پاتے ہیں۔
ہمیں بتایا گیا کہ میو ہسپتال کے سابق معروف آئی سرجن اور فری آئی کیمپوں کے ذریعے چار لاکھ سے زائد آنکھوں کے مفت آپریشن کرنے کا ریکارڈ بنانے والے معروف روحانی پیشوا صاحبزادہ ڈاکٹر حافظ فرخ حفیظ کو ’’مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ‘‘پر حاضری کی سعادت مآب لمحات میں حضورنبی ﷺ نے اس مسجد پاک وگھہ شریف کو تعمیر کرنے کا حکم فرمایا اور جگہ کی نشاندہی بھی فرمائی ۔ اس تاریخی مسجد کا نام وگھہ شریف مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پنجابی میں نصف ایکٹر زمین (چار کنال ) کو وگھہ کہا جاتا ہے اور مسجد کا احاطہ وگھہ پر مشتمل ہے۔ اپنی زندگی میں کم و بیش ایک کروڑ افراد کو روحانی راستوں کا مسافر بنانے والے صاحبزادہ ڈاکٹر حافظ فرخ حفیظ نے اس مسجد کی تعمیر کا آغاز جمعہ 16مارچ 2001 کو اپنے دست مبارک سے کیا ۔ ابتدا میں نقشہ ۔ تعمیراتی کام اور تعمیراتی سامان کے لئے دو معروف ماہرین ۔ نیشنل کالج آف آرٹس کے کامل خان ممتاز اور ماہر آثار قدیمہ شاہی قلعہ لاہور ملک مقصود احمد کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ لاہور۔ کراچی۔اسلام آباد ۔ملتان اور راولپنڈی سمیت ملک کے طول و عرض سے پتھروں کے ماہر ترین کاریگروں کو مسجد کی تعمیر کے لئے بلایا گیا لیکن آہستہ آہستہ سب افراد دور دراز گاؤں میں مسجد کی تعمیر کا ناقابل عمل منصوبہ قرار دے کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن بلند عزم صاحبزادہ ڈاکٹر حافظ فرخ حفیظ اس اُجلے خواب کو تعبیر آشنا کرنے کے لئے اپنی لگن میں مگن رہے اور ان کے عزم و حوصلے نے مشکلات کی چٹانوں کو پاش پاش کر دیا ۔ اس باکمال انسان اور مرد با خدا نے مسجد کے ساتھ اپنا حجرہ بنایا اور خود ہی نقشہ بنایا اور اپنے حجرہ کی چٹائی پر بیٹھ کر مسجد کے لئے خطاطی ۔ سنگ تراشی اور نقاشی کے ایسے حیرت انگیز جوہر دکھائے کہ بڑے بڑے ماہرین دنگ رہ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ صاحبزادہ ڈاکٹر حافظ فرخ حفیظ کو ان تمام فنون پر روحانی راہنمائی میسر رہی۔ اس عالی شان مسجد کے لئے سنگ مر مر پر قرآنی آیات۔ احادیث رسول ﷺاور درود شریف اس طرح ابھارا گیا کہ اس منفرد خطاطی اور کشیدہ کاری کو حکومت پاکستان کے ادارے ’’انٹیلیکچو ئل پراپرٹی آرگنائزیشن‘‘ نے شاندار قومی ورثہ قرار دیا ۔ پوری مسجد سفید سنگ مر مر سے تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کے فرش ۔ دیواروں ۔محرابوں ۔گنبداور چھتوں کے اندر اور اوپر قیمتی پتھروں کا جڑاؤ اور خطاطی کا کام اس طرح نفاست سے کیا گیا ہے کہ دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا کہ پتھر نہیں موم پر کام کیا گیا ہے۔ مستقبل میں عالم اسلام کا عظیم مرکز بننے کے روشن امکانات سے مالا مال اس مسجد کی دیواروں ۔ محرابوں اور چھتوں پر آٹھ رسم الخط استعمال ہوئے ہیں ۔ مسجد میں استعمال ہونے والا سفید سنگ مر مر خیبر پختوخوا کی مہمند ایجنسی سے ٹرکوں کے ذریعے مسجد پاک وگھہ شریف لایا جاتا ہے اور یہاں پر قائم کی گئی فیکٹری میں پتھروں کی تراش خراش اور پالش کا کام کیا جاتاہے۔ صاحبزادہ ڈاکٹر فرخ حفیظ نے ایک بار مسجد کی مضبوطی کے لئے دریاؤں سے سنگر یزے(کنکر) جمع کرنے کی اپیل کی تو چشم فلک نے دیکھا کہ تین ہزار افراد اس مرد درویش کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے گھروں سے جوق در جوق اور شوق در شوق نکل آئے ۔ (جاری)