سر راہے
قومی اسمبلی میں بلاول زرداری اور شاہ محمود قریشی آمنے سامنے
طوطے مینا کی کہانیاں اب ہماری نئی نسل کے لیے پرانی ہو گئی ہیں۔ اب تو قومی اسمبلی میں جو کچھ دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے وہ ان سے زیادہ دلچسپ ہے۔ ایک دوسرے کے راز دار ایک دوسرے کو سرعام دھو رہے ہیں۔ قریشی صاحب نے بلاول کی ناتجربہ کاری کی خوب کلاس لی ۔بلاول نے بھی کوئی لحاظ نہ کیا ان کی طرف سے یہ کہنا کہ ملتان کے ممبر کو ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا ایک کاری وار تھا۔ کیونکہ شاہ جی پیپلز پارٹی میں بھی وزارت کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ ان کے بارے میں پارٹی کے قائد زیادہ جانتے ہوں گے۔ بلاول نہ سہی زرداری صاحب تو بہت سے رازوں کے امین ہیں۔ اس لیے بلاول کہہ رہے تھے کہ یہ پہلے جئے بھٹو کہتا تھا پھرجئے زرداری کہتا رہا۔ آئی ایس آئی والے ان کی فون ٹیپ نکالیں۔ شاہ جی بھی ترت بولے بلاول بچہ ہے۔ میں ان کے بابا کو بھی جانتا ہوں جو پرچیاں پکڑا دیتے تھے۔ بلاول کا سوئچ آن یا آف کرنے کے لیے۔ ظاہر ہے جب وہ پی پی میں تھے تو اندرون خانہ بہت سے زاروں سے بھی واقف ہوں گے۔ گویا بات اب ذاتیات پر آ رہی ہے۔ اب یہ ایک ہی پارٹی کے دو رہنمائوں کا معاملہ کہلاتا مگر شاہ محمود قریشی اب پی ٹی آئی کے نفس ناطق ہیں۔ اس لیے ہر حملے کا جواب دے رہے ہیں۔ مگر مسئلہ کشمیر پر جو الزام تراشی ہو رہی ہے ، اس سے عوام پریشان ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی اور شاہ محمود قریشی ان الزامات سے خود کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں یا یونہی سیاسی بیان بازی کرتے ہوئے لوگوں کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔ قومی اسمبلی میں اگر ہمارے رہنما یونہی ذاتی الزام تراشی پر زور دیتے رہے تو پھر یاد رکھیں اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ اس لیے کم از کم اس فلور پر احتیاط لازم ہے ورنہ ’’خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے‘‘ انہیں تو چٹخارے دار باتیں سننے میں مزہ آتا ہے۔ خیال کیجئے اب یہ جنگ سوشل میڈیا پر بھی مقبول ہو رہی ہے وارگیمز کی طرح۔
٭٭٭٭٭
ڈاکو سبزیاں اور چور طوطے لے گئے
برسوں پہلے ایک نغمہ سنا تھا جو آج تک ذہن میں موجود ہے۔ ادھیڑ عمر کے بہت سے لوگوں کو یہ نغمہ نہ سہی اس کی چند سطریں ضرور یاد ہوں گی۔
راجہ تیری مورنی کو مور لے گئے
باقی جو بچا تھا کالے چور لے گئے
اب کساد بازاری کا ایسا دور آیا ہے کہ دکانوں میں بھی غلے اور پیسوں والے ڈبے غریب کی جیب کی طرح خالی پڑے ملتے ہیں۔ گزشتہ روز لاہور میں چور جب واردات ڈالنے ایک گھر میں گھسے تو وہاں زر نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ زر اگر ہو گا بھی تو زرداروں کے پاس ہو گا بھلا عام آدمی کے پاس اس نے کیا کرنا۔ غصے سے جھلائے ان چوروں نے جب گھر خالی پایا تو وہ گھر میں موجود قیمتی طوطے چوری کر کے لے گئے کہ اس طرح چلو چار پیسے تو ہاتھ آئیں گے۔ دوسری طرف شیر گڑھ میں ڈاکوئوں نے جب کچھ ہاتھ نہ آیا ایک سبزی فروش کی ساری سبزی لوٹ لی جو بے چارہ رکشہ میں سبزیاں لاد کر دکان جا رہا تھا۔ ان ظالموں نے پورا رکشہ ہی خالی کر دیا۔ یہ بھی فائدے میں ہی رہے ہونگے۔ کیونکہ آج کل سبزیاں سونے کے بھائو بک رہی ہیں۔ ان دونوں وارداتوں کے لیے ہم ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ والا محاورہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ حال ہو گیا ہے معاشی بدحالی کا کہ ڈاکو اور چور بھی اب معمولی چیزیں لے جانے پر اکتفا کرنے لگے ہیں۔ ایسا برا وقت شاید ہی کبھی ان ڈاکوئوں اور چوروں پر آیا ہو گا۔
٭٭٭٭
خورشید شاہ دو سال سے ہسپتال میں زیر علاج ، عدالت نے حکام سے جواب طلب کر لیا
یہ پوچھنے کا تو عدالت کو حق حاصل ہے کیونکہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں جب خورشید شاہ آئے تو بالکل اچھے خاصے صحتمند تھے اور خوب تقریر بھی کی۔ اس دوران کہیں سے بھی وہ بیمار نہیں لگ رہے تھے۔ نہ گردن میں کالر تھا نہ ہاتھ میں چھڑی یکدم سمارٹ اور جوان دکھ رہے تھے۔ حالانکہ یہ وہی خورشید شاہ ہیں جو دو سال سے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ جسے سب جیل قرار دیا گیا ہے۔ عدالت نے محکمہ داخلہ سے بھی جواب مانگا ہے کہ انہوں نے کیوں ہسپتال کو سب جیل قرار دیا ۔ آخر یہ کونسا مرض ہے کہ دو سال سے بھی علاج کے باوجود مریض صحت یاب نہیں ہو رہا۔ اس پر تو
’’مریض محبت انہی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے‘‘
والی بات یاد آتی ہے کہ یہ سیاسی مرض ہے۔ جو عشق کے مرض کی طرح ہوتا ہے۔ کبھی درست نہیں ہوتا جان لے لیتا ہے۔ ہمارے سیاستدان حکومت میں ہوں تو کبھی بیمار نہیں ہوتے۔ اپوزیشن میں ہوں تو کبھی ٹھیک نہیں ہوتے۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
دیکھتے ہیں اب محکمہ داخلہ سندھ کیا جواب داخل کراتا ہے۔ کس کس ماہر امراض سے رپورٹ لی جائے گی کہ خورشید شاہ واقعی بہت بیمار ہیں۔ مگر یہ کوئی نہیں بتائے گا کہ دو سال سے وہ کیا جھک مار رہے تھے کہ ایک بیمار کا علاج ان سے نہیں ہو سکا۔ ہر سیاسی قیدی کی خواہش ہوتی ہے کہ بیمار بن کر ہسپتال میں سب جیل کے مزے لوٹے اور آرام سے رہے کیونکہ جیلوں کی سختی ہر کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔
٭٭٭٭
پنجاب بھر میں مزارات پر حفاظت پاپوش، واش روزمز اور پارکنگ فیس ختم کر دی گئی
یہ اچھی خبر ہے۔ بالآخر محکمہ اوقاف کو زائرین کی حالت پر ترس آ ہی گیا۔ دیر آید درست آید کوئی اچھا عوام کے فائدے والا کام تو ہوا۔ محکمہ اوقاف والے کہہ سکتے ہیں کہ اب محکمہ معقول آمدنی سے محروم ہو گیا ہے تو جناب عرض یہی ہے کہ آپ کے مقرر کردہ ریٹ اگر پارکنگ اور واش رومز کے استعمال اور جوتوں کی رکھوالی پر سختی سے رائج ہوتے تو زائرین کبھی گلہ نہ کرتے‘ اف تک نہ کرتے‘ یہ فیس ختم کرنے کی بات تک نہ کرتے۔ مگر یہاں تو ٹھیکیدار مافیا نے لوٹ مار مچا رکھی تھی۔ مزارات پر عام طور پر غریب غربا ہی بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ یہ بے چارے پہلے ہی مختلف مسائل اور مالی پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہاں بھی اگر ان کی کھال اتارنے کے لیے ٹھیکیدار تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ 25 روپے جوتے رکھنے کا معاوضہ 10 روپے واش رومز استعمال کرنے کی فیس اور 50 تا 100 روپے موٹر سائیکل ، کار پارکنگ فیس ان سے وصول کرنا ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ اب امید ہے وہ قدرے سکون کے ساتھ ان آستانوں پر آ جا سکیں گے اور دعائوں میں حکومت پنجاب کو بھی یاد رکھیں گے۔ جس نے اچھا کیا۔
٭٭٭٭