جمہوریت کے ساتھ مخول ٹھٹھہ
اپوزیشن کا کام بے شک سسٹم میں کسی قسم کی کھلبلی پیدا کرنے کا تو نہیں ہوتا بلکہ جمہوریت کا حسن حکومت اور اپوزیشن کے باہمی تال میل سے ہی نکھرتا ہے۔ جمہوریت کی گاڑی میں اپوزیشن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا جس کی مستحکم جمہوریتوں میں شیڈو کابینہ بھی موجود ہوتی ہے اور حکومت اور اپوزیشن کا باہم تال میل یہی ہوتا ہے کہ سسٹم کو کسی قسم کی گزند نہ پہنچنے دی جائے۔ اس سے یہ مراد بھی نہیں کہ اپوزیشن فرینڈلی بن جائے اور حکمرانوں کی من مانیوں پر بھی صاد کرلے۔ اسی طرح اپوزیشن حکومت کے ساتھ سیاسی محاذآرائی میں اس انتہاء تک بھی نہ چلی جائے کہ نہ کھیلنے‘ نہ کھیلنے دینے کے مصداق جمہوریت کا ہی بوریا بستر گول ہو جائے۔ اپوزیشن نے بہرحال ملک اور عوام کی فلاح کیلئے حکمرانوں کی پالیسیوں اور گورننس پر کڑی نظر رکھنا اور حکومتی بے ضابطگیوں کی مجاز فورموں پر نشاندہی کرنا ہوتی ہے تاکہ سسٹم میں رہتے ہوئے اصلاحِ احوال کا عمل جاری رہے۔ اپوزیشن کا مقصد حکومت کو ہر صورت گھر بھجوانے کا بھی نہیں ہوتا اور حکمران طبقات کو من مانیوں کیلئے کھلی چھوٹ دینا بھی اپوزیشن کا مطمح نظر نہیں۔
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے جمہوریت کبھی اتنی مستحکم نہیں ہو پائی کہ اس میں حکومت‘ اپوزیشن‘ اسمبلیوں اور دوسرے متعلقہ ریاستی اداروں کو اپنے اپنے قانونی اور آئینی اختیارات اور ذمہ داریوں سے تجاوز کرنے کی کوئی ترغیب نہ مل پائے۔ یقیناً آئین اور قانون کے تابع جمہوریت کی عملداری ہی مثالی جمہوریت ہوتی ہے جس میں جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کا کبھی اور کہیں کوئی تصور ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ قیام پاکستان کے بعد ہماری جمہوریت کی پہلے تو کوئی واضح سمت ہی متعین نہ ہو پائی اور پھر اسے وقفے وقفے سے ماورائے آئین اقدامات کے چار سخت جھٹکے بھی سہنا پڑے۔ اس ماحول میں سیاست کی نرسریوں میں جن خواتین و حضرات کی نشوونما ہوئی ان سے مثالی جمہوریت کو حرزِجاں بنانے کی یقیناً توقع نہیں کی جا سکتی چنانچہ سیاسی میدان میں آنیوالی ان شخصیات نے جمہوریت کے علاوہ جرنیلی اور سول آمریت کے ساتھ بھی خود کو ایڈجسٹ کرنے کا فن سیکھ لیا اور بقول شاعر…؎
اس ملک میں ہر شخص کا ایمان بکا ہے
قیمت مجھے معلوم ہے‘ تم نام بتائو
اس قبیل کے سیاسی قائدن اور کارکنوں نے جمہوریت کو اقتدار کی سیاست کے تابع کرنے میں کبھی حجاب محسوس نہیں کیا جو ایک سے دوسری جماعت کے پلیٹ فارم پر آکر اسکی قیادت کیلئے رطب اللسان ہونے کے ماہر ہوگئے۔ جمہوری اقدار پیچھے سرکتی گئیں اور مفاد پرستی غالب آتی گئی۔ چنانچہ اس جمہوریت میں جمہور کو رگڑے لگنا فطری امر تھا۔
ہمارا آج کا جمہوری نظام عوام کی حکومت عوام کے ذریعے‘ عوام کیلئے کے قطعی برعکس عوام کو جمہوریت کے ثمرات کی بھنک بھی نہ پڑنے دینے والا بن گیا ہے جس کے بارے میں انگریزی زبان کا ضرب المثل محاورہ اب کچھ یوں ہوگیا ہے کہ:
GOVERNMENT "OFF" THE PEOPLE "BUY" THE PEOPLE "FAR" THE PEOPLE.
یعنی وہ حکومت جس میں عوام کو راندۂ درگاہ بنایا جاتا ہے‘ خریدا جاتا ہے اور انہیں حکمرانی سے دور کیا جاتا ہے۔
تو جناب! اس مفاداتی کلچر میں حکومت تو کجا‘ آپ اپوزیشن والوں سے بھی بھلا کیا توقع کرسکتے ہیں کہ وہ ملک اور عوام کے مفادات پر کوئی زدنہیں پڑنے دینگے اور ایسے حکومتی عزائم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جائینگے۔ اس مفاداتی کلچر میں اپوزیشن اقتدار میں شیرینی ملنے کے کسی اشارے پر حکومت کیخلاف اودھم مچا کر اسے کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت گرانے میں تو معاون بن سکتی ہے جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے مگر خالصتاً عوام کے مفادات اور انکے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے گھمبیر مسائل کے حل کیلئے منتخب مجاز فورموں پر حکومت کی خبر لینے کے معاملہ میںجمہوریت کی چیمپئن ہونے کی داعی سیاسی قیادتوں سے بس چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کی ہی توقع کی جاسکتی ہے‘ نہ اصلاحِ احوال ان کا مطمح نظر ہوتا ہے اور نہ مفلوک الحال عوام کے لاانتہاء دکھوں پر ان کا دل فی الواقعی پسیجتا ہے۔ سو ’’دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا‘‘۔ حکومت کیلئے صبح گیا یا شام گیا والا منظر بنانے والے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا بھی اسی مفاداتی سیاسی کلچر کے تابع حشرنشر ہوا اور پھر قومی اور صوبائی میزانیوں کو عوام کے مفاد کی خاطر منظور نہ ہونے دینے کی دعوے دار یہی اپوزیشن باہمی مفاداتی سیاست کی اسیر ہو کر حکومت کیلئے بجٹ کی بلاروک ٹوک منظوری کی راہیں بھی ہموار کرتی نظر آئی۔ اس فضا میں جناب! کسی بھی حکومت کو من مانیوں اور محض اپنے مفادات کے تحفظ والی قانون سازی کا کیوں نادر موقع نہیں ملے گا۔ اسی اپوزیشن کو اسمبلی میں پیش کردہ قومی بجٹ کی دستاویز میں ہزار خامیاں نظر آئی تھیں اور عوام کیلئے براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار دیکھ کر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر انتشار کا شکار ہونے والی اپوزیشن جماعتیں قومی اسمبلی میں بجٹ کا پھلکا اڑانے کیلئے دوبارہ صف بندی کرتی بھی نظر آئیں اور بالخصوص بلاول بھٹو زرداری اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف کیلئے ریشہ خطمی بھی نظر آئے مگر بجٹ کی منظوری کے مرحلہ میں اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ (ن) نے بے نیازی کا لبادہ اوڑھ کر اپوزیشن کی سیاست کا ہی پھلکا اڑا دیا۔ اب آپ اسمبلی کے فورم پر بلاول بھٹو اور مخدوم شاہ محمود قریشی جیسا باہمی مذاق ٹھٹھہ ہی کر سکتے ہیں۔ جمہوریت کے استحکام اور عوام کے ریلیف کیلئے آپ سے کسی عملی کردار کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 94ء کی اسمبلی میں بطور وزیراعظم تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر معمولی عددی اکثریت اور تین چوتھائی اٹل اکثریت والی ہماری حکومتوں کے ادوار میں بھی عوام کی فلاح کے کوئی منصوبے نہیں بن پائے اور ملک بیرونی قرضوں کے دلدل میں دھنستا چلا گیا ہے تو اس سے یہی مراد ہے کہ ہمارا جمہوری نظام ناکام ہو چکا ہے۔ آج باہم ٹھٹھہ مخول والے سیاست دان جمہوری نظام کے حوالے سے قوم کو کیا نتیجہ اخذ ہوتا دکھا رہے ہیں۔ اس کا اندازہ سسٹم کے ساتھ انکی ’’دلچسپی‘‘ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ پھر…؎
کیا اسی زہر کو تریاق سمجھ کر پی لیں
ناصحوں کو تو سجھائی نہیں دیتا کچھ
٭…٭…٭