’’تے لُٹ لے موجاں‘‘
ہم نے پچھلی سات دہائیوں سے اپنی شناخت ختم کرنے پر پورا زور لگا دیا ہے مگر ہزاروں سال پر مشتمل جنوبی پنجاب اورملتان کی تہذیب و فن کی شناخت کو ختم نہ کیا جاسکا۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اگر ملتان میں کسی دوسرے شہر سے آکر بسنے والے ثقافت کے دلدادہ شخص نے کوئی کام کر ہی ڈالا تھا تو ملتان سے منتخب ہونیوالے سب سے بڑے سیاستدان نے اس کام کو سرے سے ختم ہی کرڈالا کہ ’’گھر کے چراغ ہی گھر کو جلاتے ہیں۔‘‘
میں جس ملتان شہر میں بیٹھ کر یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ یہ خطہ بلاشبہ دنیا کی اعلیٰ ترین دستکاری کا مرکز ہے ۔ بہاولپور، ڈیرہ غازی خان ،کہروڑ پکا، مظفرگڑھ اور ملتان سمیت اس خطے کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں ایسے ایسے ہیرے موجود ہیں جن کی قدرتی ہنرمندی کو آگے بڑھانے میں کسی نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ دنیا کی اعلی ترین دستکاری کے مرکز ملتان میں آج بھی بلیو پاٹری اور بلیو ٹائل ، کاشی کاری کا جو کام ہوتا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی اور ملتان کی بلیو ٹائل سنٹرل ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ ماسکو تک تو نظر آتی ہے۔ پھر دنیا کا کونسا ایسا ملک ہے جہاں ملتان کی ٹائل نے اپنا رنگ نہیں جمایا ۔اس کام کے بادشاہ اللہ وسایا جنہیں حضرت شاہ رکن عالم ؒ کے مزار کی تزئین و آرائش پر آغا خان ایوارڈ بھی ملا اور اب انکے بیٹے واجد نے ملتان ائیر پورٹ پر اس خطے کے کلچر کو در و دیوار پرسجا دیا ۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہمارے فارن آفس سمیت اسلام آباد کے تمام دفاتر میں حکومت بجٹ کا محض ایک فیصد ہی جنوبی پنجاب کے ان دستکاروں کے کام کیلئے مختص کرتے ہوئے انکے ہاتھوں کی بنی ہوئی اشیاء اُن عمارتوں کی زینت بنا دیتی تو آج پاکستان کھربوں ڈالر کی ایکسپورٹ محض اس دستکاری کے شعبے میں کرچکا ہوتا۔ ملتانی نقاشی اور اونٹ کی جلد پر نقاشی کے ماہر اُستاد باقر کوپرائیڈ آف پرفارمنس ملا جبکہ رشید قریشی نے بھی اونٹ کی جلد پر نقاشی کے حوالے سے بڑا نام کما یا۔
ملتان میں کبھی ہاتھی دانت پر بھی کام ہوا کرتا تھا اور وہی کام اب اونٹ کی ہڈی پر ہو رہا ہے۔ لوکل پاٹری یعنی مٹی کے برتن بنانے کے ماہر عطاء محمد عرف عطو کمہاربھی منفرد پہچان کے حامل تھے اور ایمبرائیڈری میں ملتان کے نواحی علاقے لاڑ کے قریب گوپال پورکی خالدہ پروین کی کشیدہ کاری کو کم ہی لوگ جانتے ہیں مگر جو جانتے ہیں وہ دور دراز کے علاقوں سے آکر بھی ان کی بنائی گئی اشیا لے کرجاتے ہیں ۔ وہ درجنوں شاگرد پیدا کر چکی ہے اوراس نے پورا سسٹم بنا رکھا ہے۔
یہ انتہائی قیمتی ہیرے ملتان میں بکھرے پڑے تھے اور گمنامی کی زندگی بسر کررہے تھے کہ گوالمنڈی لاہور کے محمد علی واسطی جب ملتان میں آرٹس کونسل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن کر آئے تو انہوں نے عشق کی حد تک ان فنکاروں سے اپنے لگاؤ کو پروان چڑھایا ، انہیں ڈھونڈا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1983ء میں ان فنکاروں کو انکے کام سمیت اسلام آباد لوک ورثہ کی نمائش میں لے گئے، تب پاکستان سمیت دنیا کو پتہ چلا کہ پاکستان کے اس خطے جنوبی پنجاب میں کس کس کلاس کا ہنر مند کیسے عُسرت کی زندگی بسر کررہا ہے۔انہی کی کاوشوں سے 2003 ء میں قاسم باغ کے علاقے میں ایک ا نتہائی خوبصورت ’’کرافٹ بازار‘‘بنا جس میں مختلف ہنرمندوں کو اکٹھا کر کے ایک جگہ بٹھایا پھر شاید ہی کسی ملک کا کوئی سفارتکار ہو جس نے اس کرافٹ بازار کا دورہ نہ کیا ہو۔ یہ کرافٹ بازار اپنی عمر کے دس سال بھی پورے نہ کرسکا اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے مزارات سے خاص لگاؤ اور توسیع پسندی کی نذر ہوگیا۔ انہی دنوں کے دوران برطانوی ہائی کمشنر نے جب یہ کرافٹ بازار دیکھا تو حیرت میں گم ہوگئے توانہوں نے اس بازار کے 8 ہنرمندوں کو سرکاری خرچ پر ایک ماہ کیلئے گلاسگو بلوایا جہاں ان ہنرمندوں نے مختلف علاقوں میں اپنی ہنرمندی کے جوہر دکھائے ۔ محمد علی واسطی ہی کی کوششوں سے ملتان میں کرافٹ اینڈ ہیریٹیج انسٹیٹیوٹ بنانے کا فیصلہ ہوا تو سابق وائس چانسلر بی زیڈ یو ڈاکٹر ظفر اللہ نے فوری طور پر 16 کنال اراضی جبکہ اس وقت کی حکومت پنجاب نے چار کروڑ کی گرانٹ دیدی مگر پراسس ابھی جاری تھا کہ انہی دنوںاس حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور مٹی سے محبت کرنیو الوں کی جگہ لوہے سے محبت کرنے والوں نے لے لی پھر کرافٹ کا ٖڈرافٹ دھرے کا دھرا رہ گیا۔
حکومت پاکستان سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ ایک حکم نامہ جاری کردیں کہ دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں کی بیرونی دیواروں پر شیشے کے جار بنوائے جائیں ، ان میں ان فنکاروں کی دستکاری پر مشتمل اشیا خرید کر رکھوا دیں اور وہیں پر ہنر مند کا نام اور مکمل پتہ لکھ دیں ۔اس حکم نامے سے یقینی طور پر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو تو کچھ نہ مل سکے گا البتہ پاکستان کو اتنا کچھ مل جائے گا کہ اس سے ہماری آنے والی نسلیں بھی سنور سکتی ہیں۔ اگر حکومت کو مزید توفیق مل جائے تو ڈپلومیٹک انکلیواسلام آباد میں بھی ایک کرافٹ بازار بنوا کر ان ہنر مندوں کی اشیاء سجا دیں تو بس پھر ’’ لُٹ لے موجاں، تے رج کے کھا جواناں دیس دیا ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔