جوڈیشل الائونس کا حصہ، آرڈیننس کیلئے شام تک مہلت، وزیراعلی کو طلب کرینگے: ہائیکورٹ
لاہور (اپنے نامہ نگار سے) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے جوڈیشل الائونس کو پنشن کا حصہ بنانے کے کیس میں سرکاری وکلاء کی درخواست پر آرڈیننس جاری کرنے کی آج شام 5 بجے تک کی مہلت دے دی، عدالت نے تنبیہہ کی کہ اگر ہفتہ شام 5 بجے تک یہ کام نہ ہوا تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائیگی جو واضح طور پر فوجداری کارروائی ہو سکتی ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب کو طلب کروں گااور جواب سن کر فیصلہ کروں گا، اسی وقت شوکاز نوٹس دوں گا، رات 9 بجے فرد جرم عائد‘ اتوار کو فیصلہ کر دوں گا، عدالت نے وزیراعلی کو درخواست میں فریق بنانے کی اجازت دے دی،میں قانونی نکتہ طے کر دیتا ہوں، ہائیکورٹ کے مالی معاملات میں اختیار کو واضح کر دوں گا، یہ ایک پہیے کیساتھ جڑے ہوئے ہیں، میں اس پہیے کو توڑنا چاہتا ہوں، آئین کہتا ہے کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کیا جائے، وزیراعلی نے اگر پیش ہو کر استثنی لینا ہوا تو بتا دیں، عدالت نے وکلاء سے استفسار کیا کہ کیا وزیراعلی پنجاب کو طلب کیا جا سکتا ہے یا نہیں اس پر بھی کل شام کو فیصلہ کیا جائے گا؟سرکاری وکیل نے موقف اختیار کیا کہ وزیراعلی نے اس کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی، اس میں انکا کا کوئی قصور نہیں، معاملہ بہت پرانا ہے، اگر ہم نے ماتحت قانون ساز کمیٹی کو بائی پاس کرنا ہے تو ہمیں 4 دن کا وقت چاہیئے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ میں کوئی آپ کو جیل بھیجنے لگا ہوں؟ جو طریقہ کار ہے اس کے مطابق تو چلنا چاہئے، مجھے بالکل واضح خدشہ ہے کہ انہوں نے یہ کام نہیں کرنا، جب ہونا ہوتا ہے تو سیکشن افسر کو 10 بجے کہتے ہیں اور 2 بجے آرڈیننس جاری ہو جاتا ہے، اگر کل صبح 11 بجے تک آرڈیننس جاری ہوا تو پھر دیکھ لوں گا، اس حکومت نے 8 گھنٹے کے اندر کئی ایسے کام کئے ہیں، پتہ ہے ضابطہ دیوانی میں ترمیم کیسے ہوئی تھی؟ اسلام آباد سے ہدایت آئی تھی اور پورا سسٹم ہل گیا تھا، میرے پاس اس حکومت کے ایسے کاموں کی بہت سی باتیں ہیں،جو چند گھنٹوں میں پراسس مکمل کرکے کئے گئے،پرنسپل سیکرٹری نے کہا وزیر اعلیٰ نے سمری کی منظوری دیدی، عدلیہ کے اختیارات پر سوال اٹھایا جائے ہم سوچ بھی نہیں سکتے، سر اگر یہ چاہتے ہیں ہم بیوروکریٹس کو جیل بھیجا جائے تو ہمیں پرائیویٹ وکیل کرنے کی اجازت دی جائے، عدالت نے کہا اعلیٰ عدالت کے فیصلے کو دیکھ لیں اس میں کیا لکھا ہے اگر اس پر عمل ہوا ہے تو بتا دیں؟پرنسپل سیکرٹری نے کہادرخواست کے قابل سماعت ہونے بارے دلائل بھی آپ کے حکم کی تعمیل میں کئے گئے، عدالت نے کہاقانون کے تحت تو گورنر اور صدر کو استثنی حاصل ہے، سرکاری وکیل نے کہا4 آئینی درخواستیں ہائیکورٹ میں زیر التواء ہیں، درخواستوں میں ہائیکورٹ انتظامی کمیٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کی استدعا کی گئی ہے، آرٹیکل 204 کے تحت عدالتی حکم عدولی پر توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے، ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کا نوٹیفکیشن عدالتی نوعیت کا نہیں ہے، عدالت نے کہا کہ مسترد شدہ فیصلہ پیش کرنا بھی توہین عدالت ہے، ہر فرد کو پتہ ہے کہ جو عدالتی فیصلہ آپ پیش کر رہے ہیں وہ فیصلہ مسترد ہو چکا ہے، بتائیں کہ ایک مسترد شدہ فیصلہ پیش کرنے پر کیوں نہ توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟ عدالتی استفسار پر سرکاری وکلاء نے مسترد شدہ فیصلے کی تفصیلات ایڈووکیٹ جنرل آفس سے منگوا لیں،غیر قانونی حراست میں رکھے گئے شہری کی بازیابی کیلئے عید کی رات کو اپنے گھر میں عدالت لگا لی تھی،ایک جج صاحب ایئر پورٹ جا رہے تھے کسی ملزم کی ضمانت سگریٹ کی ڈبی کے کاغذ پر ضمانت تحریر کر دی تھی، ہائیکورٹ کا جج جہاں چاہے عدالت لگا سکتا ہے۔