صدیقہ بیگم کی یادیںاور ادب لطیف
نوائے وقت کی فائلیںصحافت اور سیاست کی تاریخ بھی ہیں اور تحقیق و تدقیق کے راہی ان فائلوں کو پڑھ کر ماضی کے آئینے میں جھانکتے ہیں ایسے ہی بعض ادبی جرائد بھی تخلیقی سفر کے آئینے اور تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان جرائد میں1935 سے مسلسل شائع ہونے والے جریدہ ادب لطیف کو بہت زیاد ہ اہمیت حاصل ہے۔ادب لطیف کو تاریخ میں اتنی اہمیت دلانے میں جس شخصیت کا بہت زیادہ کردار ہے وہ ادب لطیف کے بانی چوہدری برکت علی مرحوم کی دختر نیک اختر صدیقہ بیگم ہیں۔ صدیقہ بیگم گزشتہ برس انتقال کر گئی تھیں پاکستان اور دنیا بھر سے علم و ادب کے قد آور ادیبوں نے علم و ادب کیلئے ان کی گراںقدر خدمات اور اپنی یاد داشتوں پر مبنی تاثرات لکھے جو بجائے خود تخلیقی فن پاروںیا ادبی تاریخ کے روشن اوراق سے کم نہیں ۔ ادب لطیف کی نئی ادارتی ٹیم ممتاز ادیبوں اور ادب شناسو ں کے حسین مجروح مظہر سلیم مجوکہ شہزاد نیر اور آمنہ مفتی نے ایسی تمام تحریروں پر مبنی ادب لطیف کا صدیقہ بیگم نمبر شائع کیا ۔ بظاہر تو ہر صاحب قلم نے چالیس برس کے لگ بھگ عرصے میں ادب لطیف کیلئے رات دن ایک کر دینے والی صدیقہ بیگم کو خراج تحسین پیش کیا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے تمام احباب نے گویا پون صد ی سے زیادہ عرصے کی سرگرمیوں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ہر محفل اور ان محفلوں کا ہر چہرہ بولتا باتیں کرتا محسوس ہوتا ہے۔ اس شمارے میں شامل انکے احباب کی یادداشتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی شخصیت کے کتنے رنگ تھے۔کبھی وہ نیرنگ گیلری لاہورمیں ہیں تو کبھی قافلہ کے ماہانہ اجلاس میں کبھی بک کلب تو کبھی داستاں سرائے ۔ کبھی بزم ہم نفساں میں تو کبھی پاک ٹی ہائوس میں۔کبھی انڈونیشیا میں جا کر محمد صبوح کی رحانی تحریک سبود میں شامل اور کبھی اپنے سمدھی اشفاق احمد کے بابا نور والے کی بزم میں۔ سائوتھ امریکہ میکسیکو آسٹریلیا سری لنکا تھائی لینڈ بھارت برطانیہ یورپ کا کون سا ملک ہے جہاں ادب شناسوں سے ساتھ انکی نشستیں نہیںرہیں۔عالمی ادب اور ادیبوں پر انکی گہری نظر تھی ۔ تحریر کو ہمیشہ ادب لطیف کے وقار کے ہم پلہ رکھتیں۔ 80کی دہا ئی کے آغاز میں انہوں نے ادب لطیف کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لیا تو آنیوالے برسوں میں ادب کے اہم نام انکے ساتھ مدیران کی لسٹ میں شامل ہوئے ۔ ان میں کشور ناہید مسعود اشعر مستنصر حسین تارڑ غالب احمدمظہر سلیم مجوکہ ظفر معین بلے اور شاہد بخاری شامل تھے ۔ وہ خود نہیں لکھتی تھیں لکھتیں تو اشفاق احمد مرحوم کے بقول)جو رشتے میں انکے سمدھی بھی تھے کہ اشفاق ااحمد اور بانو قدسیہ کے بیٹے انیس احمد کی شادی ان کی بیٹی سے ہوئی تھی ( بڑے پائے کی تحریریں انکے قلم کے پاس خالق کی امانت تھیں مگر انکے بقول پھر جو کچھ عرصہ انہوں نے ادب لطیف کو ایڈٹ کیا یہ نہ کر پاتیں۔ ادب لطیف کا چارج براہ راست اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ ایک چیلنج سے کم نہ تھا۔اپنے عظیم والد برکت علی کی امانت جس کی ادارت بانی مرحوم کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے مرزا ادیب کنیہا لال کپور فیض احمد فیض احمد ندیم قاسمی ناصر زیدی جیسی اہم شخصیتوں نے کی ہو کو سابقہ معیار کے ساتھ جاری رکھنا معمولی کام نہ تھا لیکن خوبصورت پیکر اور خوبصورت روح کی حامل صدیقہ بیگم نے یہ بار گراں اٹھایا بھی اور ادب اور خاندان کے ساتھ اپنے اس عشق کو نبھایا بھی۔مظہر سلیم مجوکہ ظفر معین بلے شاہد بخاری اور حسنین جمال جیسے نوجوان قلم کاروں کو ایسی تربیت دی کہ وہ اس تاریخی جریدے کے مدیر کے طور پر کام کرنے لگے ۔ اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھائے رکھنا ان کی انتظامی خوبیوں کا عکاس تھا۔ادب کے قارئین جانتے ہیں کہ ادب لطیف نے آغاز میں ترقی پسند تحریک کو سہارا دیا اس حوالے سے قانون و انصاف کی راہداریوں کا بھی سامنا کیا۔ صدیقہ بیگم کے انتظامی دور تک آتے آتے اس تاریخ ساز جریدے کی ادارتی پالیسی میں نئی وسعت آئی ۔ اس میں لکھنے والے اپنے دور کے دو بڑے حریفوں یعنی احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا کیمپوں میں بھی موجود تھے ۔گویا ادب لطیف ہر طرح کی گروپ بندی سے بالا تر ہو گیا۔بھارت اور پاکستان کے تمام اردو ادب دوست تخلیق کار بیک وقت ان کے رابطے میں رہتے۔ چنانچہ اختر الایمان راجندر ملہوترا آل احمد سرور جوگندر پال اور رام لعل انکے رابطوں میں بہت اہمیت رکھتے تھے۔ فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید سے تعلق نبھانے کا ہنر بھی انہیں آتا تھا ) کشور ناہید سے باضابطہ سیکھنے کا اعترا ف بھی کیا (ا ور واصف علی واصف اور بابا یحیی سے بھی ان کی ارادت کا سلسلہ جاری رہتا۔ ان کی ایک بڑی خوبی جو ہر اچھے مدیر کی بنیادی پہچان ہوتی ہے یہ تھی کہ عالمی عصری ادب پر مسلسل نظر رکھتی تھیں۔ جو تخلیق پاران کے دل کو چھو لیتا وہ اس کا ترجمہ کروا کر اپنے ادبی قارئین تک پہچانے میں دیر نہ لگاتیں۔ یکم جنوری 1937سے لے کر 15 دسمبر2019 تک کا ان کا سفر ہر حوالے سے با ثمر اور خلق خدا کو ادب سے باخبر رکھنے اور راحت میسر کرنے کا سفر تھا ۔ چاند اور سورج کی طرح دوسروں کیلئے روشن رہنے کا سفر ۔ایسا سفر جو ان کے بعد بھی جاری ہے۔