’’پاکستان قومی اتحاد ‘‘ اور ذکرایک سازش کا
گذشتہ کالم میں بات ہورہی تھیPNAیعنی بھٹو کیخلاف بننے والے محاذ ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی۔جب بھٹو کو اطلاع ملی کہ مخالف سیاسی جماعتوں کا اتحاد بن رہا ہے تو انہوں نے اپنے اداروں کو حکم دیا کہ ایسا کوئی اتحاد بننے نہ پائے اور اگر بن جائے تو(ایئر مارشل ) اصغر خاں کسی صورت میں اسکے سربراہ نہ بن سکیں۔اسی طر ح کا ایک غلط فیصلہ وہ ایوب خاں کی حکومت کے وزیر اور اس کی سیاسی جماعت "کنونشن مسلم لیگ"کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے اس وقت بھی کرچکے تھے جب ایوب خاں کے خلاف صدارتی امیدوار کے طورپر مخالف سیاسی جماعتوں کااتحاد"جمہوری مجلس عمل"کسی موذوں اور مقبول امیدوار کی تلاش میں تھا۔ اوربالآخر انہیں جنرل اعظم خاں کی شکل میں ایک بہترین امیدوار مل گیا۔جنرل اعظم نے بطورگورنر مشرقی پاکستان میں بہت کام کئے تھے اور وہاں کے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ آج بھی انہیں مشرقی پاکستان میںلوگ "جنرل آجم"کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ان کانام سامنے آتے ہی کنونشن مسلم لیگ سرگرم ہوگئی کہ ہر حالت میں انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے مولانا عبدالحمید خاں بھاشانی کو استعمال کیا۔دوکروڑ روپے کی آوازیں بھی سنائی دیں۔متحدہ مجلس عمل کا اہم اجلاس جب جنرل اعظم خاں کے نام کا حتمی فیصلہ کرنے کے لئے ہواتو مولانا بھاشانی نے اعتراض کیاکہ جو آدمی کبھی بھی جنرل ایوب کی کابینہ کارکن رہاہواسے صدراتی امیدوارنہیں بنانا چاہیئے۔انہوں نے اجلاس کے علاوہ اس وقت کے میڈیا کو بھی بارباراستعمال کیا ایک طرح وہ کسی قسم کی تحریک بھی چلانے والے تھے کہ متحدہ اپوزیشن نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور یوں جنرل اعظم خاں اپوزیشن کے صدراتی امیدوار نہ بن سکے۔ایوب خاں اور ذوالفقارعلی بھٹو نے شادیانے بجائے ۔تقدیر کا فیصلہ مگر کچھ اور تھا،شکست اور رسوائی نے ایوب خاں کاگھر دیکھ لیا تھااور پھر جنرل اعظم خاں سے بھی مقبول بلکہ مقبول ترین اور پاکستانی کے دل کی دھڑکن محترمہ فاطمہ جناح صدارتی امیدواربن کر میدان میں نکلیں،امام صحافت مجیدنظامی نے انہیں"مادرملت "کاخطاب دیاجو بچے بچے کی زبان پرچڑھ گیا۔حبیب جالب عوامی شاعربن کرابھرا اورمادرملت کابازو بن کر کروڑوں لوگوں کالہوگرمانے اورسوئے ہووئوں کاجگانے لگا۔ایوب خاں دھن ،دھونس اور دھاندلی سے جیت گیا مگر مادر ملت نے سیاسی طورپر اسے لاوارث کردیا مشرقی پاکستانیوں کاغصہ بھی اپنی جگہ ابھرا اور شاید بھٹو کو اس غلطی کا اندازہ نہ ہوسکا۔قصہ مختصر جب(PNA) "پاکستان قومی اتحاد"بنا تو اب ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی مرضی کا سربراہ بنوانے کی کوشش کی۔نوابزادہ نصراللہ خاں بہت سے خوبیوں کے مالک تھے ،سیاست کے میدان میںزرگری کرنے والے سیاستدان نہیںتھے مگر نہ جانے کیوں انکے دل سے اصغرخاں کے خلاف حسد کامادہ وافرمقدار میں پایاجاتا تھا۔ایوب خاں کے خلاف اٹھنی والی تحریک میں بھی اصغرخاں کی اٹھان انہیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھی مگر کسی مناسب موقع کی تلاش میں رہے اور ان کی قائم کردہ "جسٹس پارٹی"کا خاتمہ کراکے پہلے بھی انہیں سیاسی نقصان پہنچاچکے تھے۔جسٹس پارٹی پر پھر کبھی لکھاجائے گا۔ذکرہورہا تھا اس سازش کا جو"قومی اتحاد"کاسربراہ بنانے کے سلسلے میں ہوئی اور جس کے لئے نوابزادہ نصراللہ خاں صاحب کے حسد کے مادے کوبھٹو نے استعمال کیا۔ذوالفقار علی بھٹو چاہتے تھے کہ انکے مخالف اتحاد کا سربراہ کوئی مقبول سیاسی راہنمانہ بن سکے۔انکی کوشش تھی کہ کوئی غیر مقبول راہنما خاص طورپر کوئی مولانا صاحب سربراہ بنیں۔ قومی اتحاد کانام رکھنے سے بھی قبل رفیق باجوہ کے گھر پہلااجلاس ہوا۔باجوہ صاحب جمیعتہ علماء پاکستان کے سیکرٹری جنرل تھے ۔جونہی اجلاس ختم ہواتو نوابزادہ نصراللہ خاں نے کہا کہ فی الحال ہم مجوزہ اتحاد کاجنرل سیکرٹری باجوہ صاحب کوہی بنالیتے ہیں۔ایک ہفتے کے اندر اندر مسلم لیگ ہائوس میں جب اتحاد کے سربراہ اور دیگر عہدیداران کاانتخاب ہوناتھا تونوابزادہ نصراللہ خاں صاحب نے کہا چونکہ تحریک استقلال اور جمیعتہ علماء پاکستان کا پہلے سے ہی اتحادہے لہذا انہیں ایک اکائی تصور کرتے ہوئے معاملات طے کئے جائینگے اورچونکہ باجوہ صاحب جنرل سیکرٹری بن چکے ہیںاس لئے اب اس اکائی سے اصغر خاں کوسربراہ نہیں بنایا جا سکتا۔اصغرخاں ،بیگم نسیم ولی خاں ،شیر باز مزاری ،مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفور دنگ رہ گئے کہ یہ "قومی اتحاد"توبننے سے قبل ہی ٹوٹ رہا ہے کچھ احتجاج کا سلسلہ شروع ہواتو خوداصغرخاں یہ کہہ کر اتحادکی سربراہی سے دستبردار ہوگئے کہ ہمیں ہر حالت میں متحدرہنا ہے کیونکہ اب ہم سب کی بقاء اسی میں ہے اگر ہم متحد نہ رہے تویہ موقع پھر کبھی نہ آئے گااورقوم ہمیں کبھی معاف نہ نہیں کریگی۔اورپھر قومی اتحاد کا سیاسی قافلہ ایک پرشور پہاڑی دریا کی مانندجو چلا ہو بہت کچھ بہاکے لے گیا۔
پس تحریرـ:۔قومی اتحادکی تحریک "نظام مصطفے" میں کیسے بدلی،ان شاء اللہ آئندہ کالم میں ذکرہوگا۔