بلوچستان کو وعدوں ، بیانات نہیں عملی اقدامات کی ضرورت
تجزیہ:محمد اکرم چودھری
بلوچستان کو وعدوں، دعووں اور بیانات نہیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پرامن، ترقی یافتہ اور محفوظ پاکستان کا راستہ بلوچستان سے ہی نکلتا ہے۔ دہائیاں گذرنے کے باوجود آج بھی بلوچستان کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ کئی حکمران آئے، کئی حکومتیں گئیں لیکن بلوچستان پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ سب کی نظریں گوادر پر ہیں لیکن بلوچستان پر محنت کرنے اور بلوچستان کو وقت دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ پنجاب، سندھ اور خیبر پی کے کے سیاستدانوں کو چاہیے کہ بلوچستان جائیں وہاں اپنے گھر بنائیں اور بلوچوں کو ملک کے دیگر علاقوں میں لے کر آئیں۔ گوادر کے ترقیاتی کاموں کو سامنے رکھ کر بلوچستان کو نظر انداز نہ کریں۔ موجودہ حکومت ہو یا پھر ماضی کی حکومتوں کی بات کریں، پاکستان کے سب سے اہم صوبے کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں اور تمام حکومتوں کی ایک ہی پالیسی رہی ہے۔ سب کا بلوچستان کو نظر انداز کرنے پر اتفاق رائے نظر آتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ اللہ نے موقع دیا تو بلوچستان پر توجہ دیں گے۔ یہاں مرکز اور صوبے کے سیاستدانوں نے بھی انصاف نہیں کیا۔ فنڈز درست انداز میں خرچ نہ ہونے سے احساس محرومی پھیلا ہے۔ وزیراعظم عمران خان آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف پر تنقید تو کر رہے ہیں لیکن ان کی حکومت کو بھی تین سال ہونے والے ہیں۔ پی ٹی آئی ماضی کی حکومتوں کا حساب لے لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے اپنے دور حکومت پر بھی جواب دینا ہے۔ حقائق دیکھے جائیں تو بلوچستان کو سب نے نظر انداز کیا ہے۔ موجودہ حکومت میں بھی بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام کی فضا ہے۔ بلوچستان اسمبلی سے بھی اتحاد کی خبر کم ہی سننے کو ملتی ہے۔ سیاسی دور میں بھی مسائل حل نہ ہوں، بلوچستان کے شہری بنیادی سہولیات سے محروم رہیں تو کوئی ترقی پائیدار نہیں ہو سکتی۔ وسائل، توجہ اور وقت سے محروم بلوچستان کے عوام کو گلے سے لگائے بغیر اور انہیں اہمیت دیے بغیر بیانات سے ہیڈ لائنز تو بن سکتی ہیں بلوچستان کی خدمت نہیں ہو سکتی۔