• news

پانی کا مسئلہ، صو بوں میں اختلافات سے ما حول خراب ہونے کا خدشہ

تجزیہ:محمد اکرم چودھری
پانی کے مسئلے پر مرکز اپنا کردار ادا کرے۔ اہم معاملات پر صوبوں کے مابین اختلافات سے ماحول خراب ہونے اور حالات کشیدہ ہونے کا خطرہ ہے۔ بلوچستان اور سندھ آمنے سامنے آئیں گے تو ملک دشمن عناصر بدامنی پھیلانے کی کوشش کریں گے۔ بالخصوص بلوچستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہاں ایسا کوئی بھی مسئلہ زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بلوچستان حکومت نے سندھ کا پانی روکنے کی دھمکی دی ہے تو دوسری طرف سندھ کو خشک سالی کا خطرہ درپیش ہے۔ ان حالات میں مرکز کا کردار اہم ہے۔ چار صوبوں میں سے دو اہم اور بڑے صوبے کسی بھی مسئلے پر آمنے سامنے ہوں تو ناصرف اندرونی طور حالات خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے بلکہ بیرونی دشمن بھی ایسی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بھارت جیسے دشمن کی موجودگی میں ایسے مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ بھارت پاکستان میں بدامنی پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے وہ افغانستان کے ذریعے بھی سازشیں کر رہا ہے جبکہ بلوچستان ہمارے ازلی دشمن کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ بھارت وہاں علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتا ہے جبکہ امن خراب کرنے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔ گوادر کی وجہ سے بھی پاکستان کے دشمنوں کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے سندھ پر کم پانی فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے حب ڈیم سے کراچی کو پانی کی فراہمی بند کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ بلوچستان کو بیالیس فیصد پانی کم فراہم کررہا ہے۔ بلوچستان حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ حکومت کی وجہ سے پچھہتر  سے ستتر ارب کا نقصان ہورہا ہے۔ حکومتی سطح پر یہ الزامات خطرے کی گھنٹی ہیں۔ سندھ حکومت  کے مطابق صوبے میں پانی کے ذخائر صرف دس دن کے رہ گئے ہیں۔ بارشیں نہ ہوئیں تو زراعت اور انسانی ضرورت کیلئے بھی پانی نہیں مل سکے گا۔ صوبائی وزیر سہیل انور سیال نے پانی کی قلت کا ذمہ دار ارسا کو ٹھہرایا ہے۔ ان حالات میں ارسا کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ چونکہ حکومت کے اپوزیشن کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آمنے سامنے نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں قومی مسائل پر اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ مسئلہ بھی ایسا ہی ہے اس کے حقیقی اور تکنیکی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اختلافات کو بہتر فورم پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے مسائل کا میڈیا میں نہ آنا بہتر ہوتا ہے۔ ایسے مسائل قومی سطح پر زیر بحث آئیں تو سب سے پہلے نظام اور سیاستدانوں کی صلاحیت پر سوال اٹھتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن