تحریک نظام مصطفے اور گوجرانوالہ بارکایوم سیاہ
"قومی اتحاد"کے عہدیداران کے انتخاب کے بعد اس کا پہلا جلسہ نشترپارک کراچی میں ہوا۔جس میں تمام جماعتوں کے سربراہان نے خطاب کیا۔اس کی ریکارڈنگ ہم تک لاہورکے چینز لینچ ہوم میں پہنچی۔حبیب جالب ،ملک حامد سرفرازاور سرداراکرم سکھیراوغیرہ نے یہ تقاریرسنیں۔اگرچہ مولانا شاہ احمد نورانی کا خطاب بہترین تھا مگر جس یکسوئی اور خاموشی سے عوام نے اصغر خاں کی تقریر سنی وہ اپنی مثال آپ تھاحالانکہ وہ کوئی اعلی درجے کے خطیب نہیں تھے۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس کے چند دن بعد دس لاکھ کی تعداد میں کراچی والوں نے اصغرخاں کااستقبال کرکے بھٹو سے کوئی پرانا بدلہ چکادیا۔کراچی کے بعدلاہور کے گول باغ(ناصرباغ) میں PNAکادوسرا جلسہ ہوا جس میں ایک بارپھرلوگوں نے سب سے زیادہ توجہ اصغرخاں کی تقریر پر دی اور اس کے بعد بیگم نسیم ولی خاں نے خوب دادسمیٹی ۔کراچی اور اب لاہور میں مقررین کا موضوع سقوط مشرقی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردارکا رہا۔یہ بڑا جذباتی موضوع تھا جسے سن کرسامعین کی نظریں ڈبڈبا جاتی تھیں۔بھٹو تک عوام کے اس رویے کی رپورٹیں پہنچیں توانہوں نے اسے اپنے لئے بہت بڑاخطرہ جانا۔وہ چونکہ اس کے نتائج سے آگاہ تھے اور اگرچہ انہوں نے پیشگی طورپر اصغر خاں کو اتحاد کاسربراہ نہ بننے دیا تھا مگر اس سے کوئی فرق نہ پڑا۔ایک گائوں کی سطح سے لے کر قومی سطح تک جو بھی مقرر سٹیج پر آتاتو اس کا مقبول ترین موضوع سقوط مشرقی پاکستان ہوتا۔پھر اچانک ایک دن یہ سیاسی تحریک مذہبی تحریک میں بدل گئی اور "تحریک نظام مصطفےؐ" کے نعرے اتحادکے ایک راہنما نے اپنی تقریر میں جھوم جھوم کرلگوائے ۔یہاں تک لکھ چکا تو بارایسوسی ایشن گوجرانوالہ کے قائد اعظم بارہال سے ملحق بار عہدیداران کے کمیٹی روم میں"یوم سیاہ"کاپروگرام بن گیا کیونکہ5جولائی سرپہ آن پہنچا تھا اور اس روز1977ء کی صبح جب سوکر اٹھے توبقول پروفیسر غفور کے جرنیلوں کی سیاہ رات کا آغاز ہوچکا تھا۔مجھے بھی وہ کلفتیں یادآنے لگ گئیںجو ضیائی دور میں روح وبدن کو زخمی کرچکی تھیں۔تب کے طوق وسلاسل کچہریوں میں پابجولاں چلنا،ایک سال قید یا مشقت ،10کوڑے، زیر زمین مفروری اور کوٹ لکھپت جیل ،گوجرانوالہ وساہیوال سنٹرل جیل اور دیگر عقوبت خانے ایک ایک کرکے نظروں میں گھوم گئے تو کمیٹی روم میں نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی نائب صدر شیخ ریاض کی زیر صدارت ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔فیس بک کے ذریعے دوستوں کو اطلاع ہوگئی اور ایک بجے آغاز ہوگیا۔رانا مسعود،اور وسیم اقبال چغتائی بوجوہ خطاب نہ کرسکے تاہم مسلم لیگ ق کے سٹی صدر سید طاہر شاہ ،عوامی ورکر پارٹی کے راہنما صدیق گھمن ،بار کے سابق صدر ملک شوکت علی اعوان،سابق سیکرٹری سید عمران حیدر،کراچی کے معروف صحافی ساجد اسدی ورک،ضیاء الرحمان سدھو،محمداسرائیل ،محمد ماجد ایڈووکیٹ اور پیپلز پارٹی کے رانا حنیف نے اس سیمینار سے خطاب کیا۔ملک شوکت علی اعوان نے ضیاء کے سیاہ دور میں وکلاء کے سنہری کردارپر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ جب پورے ملک میں سیاستدانوں کو اپنے گھرمیں بھی پناہ نہیں ملتی تھی تو ملک کی ہر بارایسوسی ایشن نے ان کے لئے دیدہ ودل فرش راہ کئے ۔ہر جبر اور لالچ کا مقابلہ کرتے ہوئے سینہ تان کرسیاستدانوں کو بار سے خطاب کی دعوتیں دیں ۔پنجاب بارکونسل کے ممبر ظہیر احمد چیمہ نے بڑی پر اثر تقریر کی ۔جمہوریت کی پامالی پر بھی روشنی ڈالی اور مخالف قوتوں کو بھی للکارا ۔انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پنجاب بارکونسل کے پلیٹ فارم سے بھی جمہوری اقدار کے تخفظ کیلئے کام کیاجائے گا۔ سید طاہر احمد شاہ نے" انکشاف" کیا کہ قومی اتحادکی قیادت نے غلام اسحاق خاں کو جو اس وقت ایک طاقتور بیوروکریٹ اور جنرل سیکرٹری تھے،کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ بھٹو نے ملک میں خانہ جنگی اور مخالفین کو قتل کروانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے ۔ یہی خط لے کر وہ جنرل ضیاء کے پاس گئے اور انہوں نے "ملک بچانے"کے لئے مارشل لاء نافذ کردیا۔اس موقع پرسٹیج کی طرف سے حوالے کو غیر مصدقہ قراردیا گیا ۔بات آگے بڑی تو عوامی ورکر پارٹی کے صدیق گھمن نے ملک میں جمہوریت اور آمریت کی تاریخ اور اس کے مضمرات بیان کیئے ان کے ان خیالات کی تائید محمد اسرائیل ،معظم پال ،ضیاء الرحمان سدھوایڈووکیٹس نے کی ۔وکلاء کے اس سیمنیار میں اپنی محبتوں کی وجہ سے سیاسی کارکنوںبالخصوص پیپلزپارٹی کے کراچی سے آئے ہوئے صحافی ساجداسدی ورک اور رانا حنیف نے بھی شرکت کی ۔شیخ ریاض جو نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی نائب صدراورسیمینارکے صدر بھی تھے ان کی پرمغز تقریر"صدارت"کی نظرانداز ہوگئی ۔اگرچہ اس سیمینار کی فیس بک اور دیگر سے بھی ایک حد تک تشہیر کی گئی تھی مگر ن لیگ کا نہ کوئی مقامی ممبربارشریک ہوا اور نہ شہر بھر سے کسی ن لیگی نے شرکت کی ۔یہ سب کے لئے حیرانی کا باعث تھا۔شاید ن لیگی حضرات صرف پرویز مشرف کو ہی ڈکٹیٹر مانتے ہوں یا جنرل باجوہ کے خلاف ہی دریدہ دہن بنے رہتے ہیں ۔تاہم انہوں نے ثابت کیا کہ ان کے دلوں سے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی محبت ابھی تک نہیں جاسکی۔5جولائی کی نسبت سے یہ سیمینار تو ہوگیاتاہم ابھی تک اصل موضوع یعنی"قومی اتحاد"کی سیاسی تحریک نظام مصطفےؐ میں کیسے بدلی ؟ اس سوال کا جواب ان شاء اللہ اگلے کالم میں آپکو مل جائے گا۔