بلاول کا مخمصہ اور سیاسی راستہ
بلاول بھٹو زرداری کا بھی وہی مخمصہ ہے جو کسی زمانے میں میرا تھا‘ 80 کی دہائی کے آخر کی بات ہے مجھے اسٹامپ فروشی کا لائسنس مل گیا۔ اب عمر ایسی تھی کہ نئی نئی مونچھیں پھوٹ رہی تھیں‘ داڑھی ابھی شاید پوری طرح نہیں آئی تھی تو کہہ لیجئے ناتجربہ کاری صاف چہرے سے جھلکتی تھی۔ زمین‘ جائیداد اور دیگر معاملات پر لکھت پڑھت ایک بڑا سنجیدہ معاملہ ہوا کرتا ہے اور کبھی بھی کوئی آدمی جو عدالت یا کچہری کسی دستاویز کی تکمیل کے لئے جاتا ہو‘ وہ کسی ناآموز یا اناڑی کی خدمات حاصل نہیں کرتا۔ مجھے ایڈوانٹیج یہ تھا کہ میرے والد صاحب کا اس حوالے سے پاکپتن شریف میں بڑا نام تھا اور ان کے نام کی وجہ سے بہت سارے لوگ مجھ تک آتو جاتے تھے لیکن مجھے دیکھ کر وہ اپنی مایوسی چھپا بھی نہیں پاتے تھے۔ ایسے میں جو لوگ بہت تعلق والے ہوتے وہ رسم دنیا کے لئے مجھ سے ’’مشورہ‘‘ بھی کرتے تھے لیکن اس کے بعد کسی نہ کسی طور میرے والد مرحوم سے بھی رائے ضرور حاصل کرتے۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہوا کہ میری کم عمری میری قابلیت کے آڑے آرہی ہے تو میں نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنا شروع کیا۔
سب سے پہلے تو میں نے شیو کرنا چھوڑ دی اور چھوٹی چھوٹی جتنی بھی ہو پائی میں نے داڑھی رکھ لی۔ اس کے بعد میں نے لاہور سے ایک پرانی طرز کا گول شیشوں والا فریم لیا اور اور اس میں زیرو نمبر کے سفید شیشے لگوائے۔ ان دو کاموں سے میری ظاہری وضع میں قدرے فرق پڑ گیا اور میں تقریباً چار‘ پانچ سال بڑا نظر آنے لگا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے ’’میچورٹی‘‘ ثابت کرنے کے لئے اپنے حلیے میں واضح تبدیلیاں لانا پڑیں۔ کام چل نکلا‘ تھوڑے عرصے بعد میں نے اپنے پاس ایک حقہ بھی رکھ لیا جو دن میں دو بار تازہ کیا جاتا۔ ظاہر ہے اس کے بعد میرا کام بڑھ گیا اور گرد و نواح کے دیہاتی علاقوں کے لوگ بھی آنے لگے۔ تھوڑا مزید ’’ٹشن‘‘ کے لئے ہم نے ہاتھ میں سگریٹ کی ڈبی بھی پکڑنی شروع کر دی جو عام طور پر سامنے میز پر پڑی رہتی۔
اس ساری بات بتانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہماری پاکستانی عوام کی نفسیات بھی عجیب ہے کہ یہ وضع قطع‘ نام نہاد معاشرتی اصولوں اور خود ساختہ معیارات کو مدنظر رکھ کر سامنے والے کی قابلیت اور اہلیت کے بارے اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔ انہیں اس بات سے سروکار نہیں کہ ’’کیا بات ہو رہی ہے‘‘ بلکہ ان کی ساری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ
’’کون بات کر رہا ہے‘‘
اور یہ ’’کون‘‘ بھی انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ’’پتھر کے صنم‘‘ تراش رکھے ہیں۔ وگرنہ کون جانے اس گدڑی میں کون کون سا لعل چھپا ہے؟
ایک دفعہ ہم نے جو بت بنا لیا سو بنا لیا‘ پھر کوئی برہمن ہمیں کسی دوسرے کے حق میں قائل نہیں کر سکتا‘ نہ اس سیاسی مندر کے گھنٹے بجانے سے روک سکتا ہے۔
یہ سب کچھ لکھنے کا خیال اس لئے آیا کہ ابھی ابھی بلاول بھٹو زرداری نے آزاد کشمیر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے ’’بَلّے اور بِلے دونوں کو شکست دیں گے‘‘ کیا خوبصورت فقرہ ہے۔ بلاول کی کم عمری اور اردو پر عبور کے ساتھ بالکل لگاوٹ نہیں رکھتا۔
آپس کی بات ہے یہ زیر اور زبر کے ساتھ کھیل کر جو بات کہی ہے وہ کمال ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاول ذہنی طور پر بہت آگے کا سفر طے کر چکا ہے اور اس کو مشکل حالات میں مختلف پیرائے میں اپنے دشمنوں اور نام نہاد حلیفوں کو بھی نشانہ بنانا آتا ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بلاول کے بِلے اور آصف علی زرداری کے بِلے میں فرق ہے۔ اب ظاہر ہے کہ بین السطور اگر بلاول ’’شیر‘‘ کو بِلا قرار دے رہے ہوں یا کسی اور کو‘ اس کا مطلب پوچھ کر فقرے کا مزہ خراب نہیں کیا جا سکتا۔
تحریر کے آغاز میں جس مخمصے کا ذکر کیا تھا وہ تو کہیں درمیان میں ہی رہ گیا کہ بات کہیں اور نکل گئی۔ یہ کیسا لطیفہ ہے کہ پاکستان میں 32 سالہ بلاول بھٹو کے مقابلے میں 49 سالہ مریم نواز اور 68 سالہ عمران خان نوجوانوں کے نمائندہ ہونے کے دعویدار ہیں اور ہمارا کمال دیکھیئے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگ ان دعوؤں پر یقین بھی رکھتے ہیں۔
لگتا یہ ہے کہ بلاول کو بھی زیرو نمبر کی عینک اور ہاتھ میں سگریٹ کی ڈبی پکڑ کر ہی قومی سیاست میں اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی عوام ’’لونڈے لپاڑوں‘‘ کے نمائندگان کی راہ میں آنکھیں بچھاتی ہے یا انہیں میچور سیاسی قیادت کی تلاش ہے؟
عوام کا پتہ نہیں بلاول نے اپنا رستہ چن لیا ہے!