• news
  • image

 انوکھی سزا

 خبریں بھی روایتی سی ہو گئی ہیں سیاسی خبروں میں نئی بھڑک کے علاوہ کچھ نیا نہیں ہوتا جرائم کی خبروں میں واقعات نئے ہوتے ہیں ہمارا میڈیا سماجی خبروں کو گھاس نہیں ڈالتا نہ ہی سوشل ایشوز کو ہم کوئی ایشو سمجھتے ہیں عدالتی خبروں سے رپورٹروں کی جان جاتی ہے کہ ذرا سی غلطی سے کہیں توہین عدالت کی زد میں نہ آجائیں عدالتی خبروں میں صرف ججز کے ریمارکس مختلف ہوتے ہیں لیکن باقی سب ایک جیسا ہوتا ہے  کل کے اخبار میں مجھے ایک مختلف خبر پڑھنے کو ملی یہ ایک عدالتی خبر تھی جو اندرون سندھ دادو سے تھی جہاں ایک سیشن جج نے رکن قومی اسمبلی کے بھانجوں سے سزا کے طور پر گٹر صاف کروایا خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مقامی رکن قومی اسمبلی نے اپنے دو بھانجوںکو گھوسٹ بھرتی کروا رکھا تھا جو گھر بیٹھے تنخواہ وصول کر تے تھے معاملہ سیشن جج صاحب کے پاس آیا تو انھوں نے دونوں سے سزا کے طور گٹر صاف کروایا جن کی فوٹیج سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو گئی دونوں بااثر ملزمان نے بڑی منت سماجت کی لیکن جج صاحب نے اپنی آنکھوں کے سامنے سزا پر عملدرآمد کروایا مجھے نہیں پتہ کہ ایسی سزاوں کی کوئی آئینی یا قانونی حیثیت ہے یا نہیں اور جج صاحبان ایسی سزائیں دینے کا استحقاق بھی رکھتے ہیں یا نہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ ایسی سزاوں کا معاشرے پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے بہت پہلے لاہور میں ایک پولیس افسرتھے ذوالفقار چیمہ پہلے وہ ایس پی سٹی ہوتے تھے پھر ایس ایس پی یعنی لاہور پولیس کے سربراہ بھی رہے انتہائی ایماندار تھے جب وہ ایس پی سٹی تھے تو ان کے علاقے میں منشیات فروخت کے بڑے اڈے تھے انھوں نے ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا وہ منشیات فروشوں کو گرفتار کروا کر عام لوگوں سے ان کا منہ کالا کرواتے پھر ان کے علاقوں میں انھیں گھمایا جاتا ان کی تصاویر بنوا کر میڈیا میں تشہیر کے لئے دی جاتیں ویسے تو شاید قانون کی نظر میں ایسی سزاوں یا ایسا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں لیکن یہ فارمولا بڑا کارگر تھا ایسے لوگوں کے خلاف نہ کوئی گواہ بنتا تھا اور نہ کوئی خوف کے مارے مقدمہ درج کروانے کی ہمت کرتا تھا باامر مجبوری پولیس کو اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرنا پڑتا تھا سرکاری مدعیت اور سرکاری گواہوں کو عدالتیں جتنا سنجیدہ لیتی ہیں وہ ہم سب کو پتہ ہے جس کا بہر حال فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے اوپر سے یہ لوگ مہنگے تجربہ کار وکیل کر کے رہا ہو جاتے لیکن جو کچھ ان لوگوں کے ساتھ گرفتاری سے قبل سماجی طور پر ہو چکا ہوتا تھا جہاں ان کا منہ کالا کر کے گھمایا گیا ہوتا تھا سماجی سطح پر ان کو بے عزت کیا جاتا وہ پھر کبھی ان علاقوں کی طرف منہ نہیں کرتے تھے سماجی جرائم کے ملزمان کو سماج میں ذلیل کر کے ذوالفقار چیمہ نے بہت حد تک منشیات کی فروخت پر قابو پا لیا تھا ایک دفعہ انھوں نے کچھ اساتذہ کو امتحان میں نقل کرواتے گرفتار کر لیا  لوئر مال تھانہ میں ان کے کان پکڑوا کر مرغا بنے ہوئے تصاویر بنوائیں اور انھیں اخبارات میں شائع کروا دیا کیونکہ اس وقت نہ ٹی وی چینلز تھے نہ سوشل میڈیا تھا اخبارات میں تصاویر کی اشاعت پر شہر میں متضاد بحث شروع ہو گئی اور شاید عدالت نے  اس کا نوٹس بھی لیا اور شاید اس کی پاداش میں ذوالفقار چیمہ کی ٹرانسفر بھی ہو گئی لیکن یہ بات واضح ہے برائی کو سماجی سطح پر بے نقاب کرنے سے بہتری پیدا ہوتی ہے اگر ہم اپنے عدالتی نظام کا جائزہ لیں تو معاشرے میں جرائم کم ہونے کی بجائے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں  انصاف بہت تاخیر سے ملتا ہے جس کی وجہ سے ملنے والی سزاوں کا اثر زائل ہوجاتا ہے دوسرا سر عام سزا دینے سے لوگوں میں خوف پیدا ہوتا ہے اور جرائم میںکمی ہوتی ہے لیکن مقدمات میں غیر معمولی تاخیر سے فیصلوں اور سزاوں کا اثرنہیں رہتا جس سے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے پاکستان میں پیسے کا عمل دخل بہت زیادہ ہو گیا ہے پیسے کے حصول کیلئے برائی کو برائی نہیں سمجھاجاتا بلکہ ہر مالدار شخص چاہے اس نے جیسے بھی مال اکٹھا کیا ہو وہ معاشرے کاباعزت ترین انسان کہلاتا ہے ہمارے ہاں عزت کا معیار تبدیل ہوتا جا رہا ہے جب تک معاشرہ برائی کرنے والے کو برا نہیں سمجھے گا تبدیلی نہیں آسکتی بہتری کے لیے معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جس رکن قومی اسمبلی نے اپنے دو بھانجوں کو گھوسٹ ملازم رکھ کر صفائی کرنے والوں کا حق مارا ہے اور معاشرے کیساتھ زیادتی کی ہے ایک تو اس نے فرضی ملازم رکھے اور دوسرا وہاں صفائی کا کام متاثر ہوا معاشرے کی طرف سے اس کی اصل سزا یہ ہے کہ اگلی بار لوگ نفرت کے طورپر اسے ووٹ نہ دیں اگر اس حلقے کے لوگ اپنے منتخب نمائندے کو یہ سزا دے دیں توآئندہ کبھی بھی کوئی رکن اسمبلی ایسی حرکت نہیں کرے گا

epaper

ای پیپر-دی نیشن