مہنگائی پر سراج الحق اور پرویز خٹک کا موقف!!!
مہنگائی اندرونی طور پر ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے حکومت نے اس مسئلے کو بہت برے طریقے سے نظر انداز کیا ہے۔ بائیس کروڑ لوگوں کی ضروریات کو دیکھا جائے تو اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہیے تھا لیکن حکومت کو لگ بھگ ڈھائی سال ہونے کو آئے ہیں لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ ان صفحات پر ملک کے سب سے بڑے اور اہم مسئلے پر اتنا لکھا گیا ہے کہ شاید لوگ یہ سمجھنا شروع ہو گئے کہ ساری مہنگائی شاید میرے لیے ہی ہوئی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، مرکز اور صوبوں کی سطح پر ہر جگہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ بعض اوقات اعداد و شمار کے حوالے سے لکھا گیا، بعض اوقات بیانات پر لکھا گیا، بعض اوقات مسائل پر حل کرنے کی کوششوں پر لھا گیا،۔ بعض اوقات اشیاء خوردونوش کی عدم دستیابی پر لکھا، کبھی حکومتی اقدامات کو زیر بحث لایا گیا، کبھی اس حوالے سے ہونے والی پر بات کی گئی، کبھی طلب و رسد پر لکھا گیا، کبھی کسی اشیاء خوردونوش کی امپورٹ ایکسپورٹ پالیسی پر لکھا گیا غرضیکہ ہر طرح سے کوشش کی گئی کہ عوامی پسندیدگی کے اعتبار اور ضرورت کے حساب سے تمام پہلوؤں کا جائرہ لے کر ذمہ داری نبھانے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران ایسا بھی ہوا کہ دوست ناراض ہوئے، بہت سے لوگ جن سے کوئی تعلق نہیں تھا مسائل کی نشاندھی پر انہوں نے بھی مخالفت کی۔ چلتے چلتے یہ سفر آج یہاں تک پہنچا ہے کہ سارا پاکستان چیخنے چلانے پر مجبور ہے۔ کراچی سے خیبر تک اور مپتان سے گوادر تک کوئی شخص ایسا نہیں جو مہنگائی سے تنگ نہ ہو۔ آج سب ایک ہی آواز میں حکومت کو کوس رہے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کہتے ہیں کہ حکومت کی تین سالہ کارکردگی نے ہمارے صدمے اور شرمندگی کے احساس کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ ملک اس وقت معاشی بحران سیاسی انتشار اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہے۔ نئے وفاقی بجٹ کے اثرات عوام کے لیے کرونا کی چوتھی لہر سے زیادہ خطرناک ہیں۔ آئی ایم ایف کی مرضی اور حکم نے ہمارے مستقبل کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ نئے بجٹ کے بعد مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بیروزگاری، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ جیسی اذیتوں کا حل نکالنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔
سراج الحق مجھے بہت عزیز ہیں ان سے محبت اور احترام کا رشتہ ہے۔ گوکہ جماعت اسلامی کی سیاسی طاقت میں کمی آئی ہے لیکن پھر بھی جماعت کم از کم عوامی مسائل کو اجاگر کرتی رہتی ہے۔ سراج الحق اکثر و بیشتر عام آدمی کا لہو گرماتے رہتے ہیں۔ وہ عام آدمی کے مسائل پر بھی لب کشائی کرتے رہتے ہیں۔ دیگر سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات میں کام کرتی ہیں۔ اپنے مفادات کے لیے انتشار پھیلانے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اس سیاسی کھیل میں عوامی مسائل کا نظر انداز ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اور مولانا فضل الرحمان کی جماعت بھی اسی جذباتی انداز میں تقریریں کرتے کرتے اصل سیاست جس کا مقصد عوامی فلاح و بہبود ہے اسے بھلا دیتے ہیں۔ ان دنوں بھی اپوزیشن صرف اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف ہے۔ نون لیگ تو سب کچھ افواج پاکستان کے سر ڈال کر عوامی سطح پر انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان حالات میں بھی مہنگائی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ کسی جماعت نے قومی اسمبلی میں دونوں حکومتوں کا موازنہ نہیں کیا، کسی جماعت نے پارلیمنٹ میں اس حوالے سے کوئی تحریری ثبوت پیش نہیں کیا، اعدادوشمار کی بنیاد پر کوئی بحث نہیں کی، حکومت تو کبھی اس مسئلے پر بات نہیں کرے گی لیکن کیا اپوزیشن کو بھی کسی نے بات کرنے سے روکا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی اجتماعی کوشش نظر نہیں آئی۔ وزیراعظم عمران خان نے درجن بھر نوٹس لیے کابینہ کو ہدایات جاری کیں لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔ آج بھی اپوزیشن اپنے اپنے کیسز پر عدالت میں پیش ہوتی ہے لیکن کبھی حکومت کے ساتھ عام آدمی کے مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی اگر گیس، پانی بجلی کے بل جمع کرواتا ہے تو کھانے کے لیے پیسے نہیں بچتے۔ گھر کا کرایہ، بچوں کی تعلیم اور ادویات کے لیے ادھار کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے کابینہ نے کبھی عام آدمی کا بجٹ ہی نہیں بنایا، نہ انہیں عام آدمی کے مسائل کا ادراک ہے۔ حکمران طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ لوگ بول رہے ہیں بولتے رہیں، بولتے بولتے تھک جائیں گے اور تھک کر خاموش ہو جائیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا منتخب نمائندوں کے ہوتے ہوئے بھی اس بنیادی مسئلے کو حل کرنے کے لیے عام آدمی کو احتجاج ہی کرنا پڑے گا۔ اگر یہ مسائل بھی پارلیمنٹیرینز حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے تو پھر ایسی جمہوریت کا یا ایسے منتخب نمائندوں کا کیا فائدہ ہے۔ جماعت اسلامی اس سلسلے میں بہت مثبت کردار ادا کر سکتی ہے، جماعت کے احتجاج کا طریقہ کار ہمیشہ مختلف رہا ہے۔ اس مسئلے پر عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے جماعت اسلامی مہنگائی کیمپ لگائے اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ ہونے والے نقصان کو عوام تک پہنچائے تو کم از کم عوامی سطح پر حقائق تو پہنچیں گے ممکن ہے اس مہم کے بعد دیگر جماعتیں بھی ساتھ ملیں اور عام آدمی کا بھلا ہو جائے۔
وزیر دفاع پرویز خٹک کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کی غلط پالیسیوں کی بدولت آج عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں، اس کی تمام تر ذمہ داریاں باریاں لینے والے حکمرانوں پر ہے۔ پرویز خٹک کے پاس ایک اہم وزارت ہے۔ وہ ذمہ دار سیاست دان ہیں لیکن جو بات انہوں نے کی ہے یہ سب سے آسان ہے۔ سب کچھ ماضی کے حکمرانوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ چلیں یہ مان بھی لیں کہ ماضی کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بہت نقصان ہوا لیکن جو پالیسیاں ڈھائی برس میں بنی ہیں وہ تو پاکستان پیپلز پارٹی یا نون لیگ والوں نے نہیں بنائیں اس دوران ہونے والی مہنگائی کی ذمہ دار تو پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہے۔ ماضی کی غلط پالیسیوں کا بوجھ تو عوام نے اٹھا لیا ہے اب حکومت کم از کم اپنے ڈھائی سال کی کارکردگی کا کچھ ریلیف تو عام آدمی تک پہنچائے۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر بیانات جاری کرنا بہت آسان ہے۔ بازاروں میں جا کر حالات کا جائزہ لینا اور عوام کا سامنا کرنا مشکل ہے۔ حکومت مہںگائی تو ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے کم نہیں کر سکتی لیکن اسے قوت خرید بڑھانے سے تو کسی نے نہیں روکا۔ حکومت ماضی میں پھنسی رہے گی تو نہ مہنگائی رکے گی نہ قوت خرید بڑھے گی اس کے نتیجے میں صرف عام آدمی پسے گا، کیا اس تبدیلی کے لیے لوگوں نے بلے پر مہر لگائی تھی۔