• news
  • image

 ویلڈن وزیر اعظم صاحب! 

 مہنگائی ،بیروز گاری،کورونا ،چوری ڈکیتی اور قومی اسمبلی کے اندر اور باہر ’’معزز‘‘ ارکان اسمبلی کی دھینگا مشتی اور گالی گلوچ جیسی دل جلانے والی خبروں کے ہجوم میں عرصہ دراز بعد ایک خوش کن خبر یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے اسلام آباد پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل قیصر شکیل کو دوران ڈیوٹی زخمی ہونے کے باوجود اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرنے پر وزیر اعظم ہائوس بلا کر اس کی حوصلہ افزائی کی اور فرض شناسی کی عمدہ مثال قائم کرنے پر انعام دینے کا اعلان بھی کیا ۔ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ متعلقہ اہلکار کی وزیر اعظم ہائوس میں صرف حوصلہ افزائی ہی کی گئی یا اُس کی کوئی ’’ خاطر مدارت‘‘ بھی ہوئی۔  مجھے ریڈیو پاکستان کی کنٹین پر ایک ’’خانصاحب‘‘ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے انتہائی بدمزہ چائے کا محض ایک گھونٹ پی کر اسے پرے کردینے کے بعد اس کا بل دینے کے لئے جیب سے پیسے نکالتے ہوئے چائے والے سے پوچھا’’ یار!یہ چائے جو تم نے مجھے دی ہے اس میں نہ دودھ ہے نہ پتی ہے نہ میٹھا اور تیس روپے اس کی قیمت ہے یہ بتائو تمہیں کوئی بچت بھی ہوتی ہے یا نہیں‘‘۔ اگر حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو امید کی جاسکتی ہے اس بچت سے حاصل ہونے والی اس خطیررقم سے وہ آدھی رقم بقول مراد سعید بہت جلد اُن ملکوں کے منہ پر دے ماریں گے جن کا ہم نے قرض دینا ہے اور باقی آدھی رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرکے ملک کی کایا پلٹ دیں گے۔ بہرحال متعلقہ پولیس اہلکار کے لئے ضرور باعث ِتشویش ہے۔ وہ یوں کہ مختلف ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں اس خبر کی تشہیر سے اُس اہلکار کی جتنی مشہوری ہو چکی ہے اس کے نتیجے میں اُس کے گھر آکر اُسے مبارک باد دینے والوں نے اب تک چائے پانی کے چکر میں اس ’’نمانے‘‘ کا اچھا خاصا ’’کباڑا ‘‘ کردیا ہوگا۔ گھر آئے مہمانوں کی اس طرح خدمت کی بات ممکن ہے وزیر اعظم صاحب کے لئے عجیب ہو اس لئے کہ اُن کی زندگی کا زیادہ حصہ یورپ میں گزرا ہے جہاں گھر آئے مہمانوں کو ’’روٹی شوٹی کھا کے جانا ‘‘ والے رواج کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن جس معاشرے میںہم رہتے ہیں اس میں تو فوتگی پر آئے مہمانوں کو بھی کھلائے پلائے بغیر واپس بھیجنا بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔یہاں تو معاملہ ٹریفک کانسٹیبل کو مبارک دینے کا ہے جس میں گھر آئے مہمانوں کا منہ میٹھا نہ کروانے پر ہمیشہ کے لئے تعلق داری ختم بھی ہوسکتی ہے ۔چونکہ اس’’ کیس‘‘ میں انعام کا اعلان بھی ہے اس لئے ممکن ہے وزیراعظم صاحب کی طرف سے بہت بڑے انعام کی آس میں اس اہلکار نے کسی سے اچھا خاصا اُدھار لے کر مبارک باد دینے والوں کا منہ میٹھا کروانے کے ساتھ اب تک اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اچھے خاصے ’‘گل چھرے‘‘ بھی اُڑا لیے ہوں۔اب اگر خدانخواستہ اُسے یہ انعام نہ ملا یا یہ انعام اُس کی توقعات سے کم ہوا توایسی صورت میں وزیراعظم صاحب کا یہ ’’تھاپڑا‘‘ اُس مسکین کو بہت مہنگا بھی پڑ سکتا ہے ۔اس لئے کہ محکمہ پولیس میں ایک چھوٹے درجے کے ملازم کے لئے اپنی محدود تنخواہ میں کسی خوشی اور غم کے موقع پر لی گئی اُدھار کی رقم کو واپس کرنا کس قدر مشکل ہوسکتا ہے اُس کا بآسانی اندازہ پولیس کے کسی بھی سپاہی کی اپنی اور اُس کی وردی کی اُڑئی ہوئی رنگت ،گھسے ہوئے بوٹ اور سڑک کنارے کھڑے ہوکر راہگیروں سے لفٹ کے لئے’’ترلوں‘‘ سے لگایا جاسکتا ہے۔ شدید گرمی میں سڑکوں پر اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے گھنٹوں کھڑے رہنے اور عوام کو چوروں،ڈاکوئوں اور دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کے لئے دن رات برسرِ پیکار عید شب برات پربھی ڈیوٹی کرنے والے پولیس ملازمین کے ذاتی حالات یہ ہیں کہ انہیں اور ان کی فیملی کو صحت،رہائش اور تعلیم جیسی مناسب سہولیات میسرہیں نہ انہیں اپنی جان کی بازی لگا کر ملک و قوم کی خدمات کے اعتراف میں دوران ملازمت یا ریٹائر منٹ کے بعد کوئی پلاٹ یا زرعی زمینیں الاٹ کی جاتی ہیں۔وزیر اعظم صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آپ نے جس طرح ہیڈ کانسٹیبل قیصر شکیل کو اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرنے پراس کی حوصلہ افزائی کی ہے اسی طرح پولیس کے دیگر ملازمین کی قربانیوں اور اُن کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے اُن کے لئے بھی مناسب اصلاحات کریں تاکہ محکمہ پولیس کے تمام اہلکار اپنے بیوی بچوں کی فکر سے پوری طرح آزاد ہو کر افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ قوم کو چوروں ڈاکوئوں اور دہشت گردوں سے نجات دلانے کے لئے مزید جوش اور جذبے سے اپنا فرض ادا کر سکیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن