• news
  • image

پولیس کانسٹیبل

پولیس میں جب کوئی شخص کانسٹیبل بھرتی ہوتا ہے تو اسکی پھولی ہوئی چھاتی34 انچ سے کم نہیں ہوتی۔ ٹریننگ کے چھ مہینے اسکی کمر کو ایک دو انچ کم کر دیتے ہیں اور پوری زندگی میں یہ اسکی کمر کی آخری کمی ہوتی ہے کیونکہ اسکے بعد اسکی توند بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کانسٹیبل پولیس کا سب سے کمزور عہدہ ہوتا ہے۔ اس کا رینک، تنخواہ، عزت، رتبہ بہت کم ہوتا ہے۔ ہر کانسٹیبل کی شرٹ کا رنگ آپس میں نہیں ملتا کیونکہ کسی کے گھر کپڑے صابن سے دھلتے ہیں تو کسی کے گھر پاوڈر سے اور بہت سے واشنگ الاونس کم ہونے کی وجہ سے کئی کئی ہفتے تک کپڑے دھوتے ہی نہیں۔ ہمارے معاشرے میں کانسٹیبل ہر چیز میں رعایت حاصل کرنا اپنا حق سمجھتا ہے، چائے والے ڈھابے سے مفت چائے، فروٹ کی ریڑھی سے مفت فروٹ، بس میں فری سفر، ہوٹلوں سے تین وقت کا فری کھانا جیسی سہولتیں اسے زبردستی میسر ہوتی ہیں لیکن یہی کانسٹیبل اپنے بچوں کی کتابیں پیسے دے کر خریدتا ہے، ان کا یونیفارم، سکول فیس اور اپنا بجلی کا بل خود دیتا ہے کیونکہ جس قدر کم اس کی تنخواہ ہوتی ہے اتنے میں وہ بس یہی کر سکتا ہے اور اسی وجہ سے شاید وہ مفت کھانے پینے والی پالیسی اپناتا ہے۔ یہ ایسا زیرو ہے جس کے بغیر گنتی میں اضافہ ممکن نہیں۔ بیوروکریٹ جوئنیر ہو یا سینئر ، جب تک اس کے ساتھ کانسٹیبل نہ ہوں تب تک کوئی بھی ان افسران کو نہیں پہچانتا۔ بوریوالہ میں ایک گارڈ نے اسسٹنٹ کمشنر کو روک لیا لیکن یہ کانسٹیبل ہی تھا جو اسے اندر لے کر گیا۔ یہ بڑے بڑے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کے ساتھ لگا وہ زیرو ہے جس کے بغیر انہیں سبزی منڈی میں کوئی ریٹ بھی چیک نہ کرنے دے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بڑے بڑے لوگ بھی کانسٹیبلز کو سیکیورٹی کیلئے پولیس سے مستعار لیتے ہیں۔ یہ بڑے بڑے لو گ کانسٹیبل کے بغیر کسی کو "بڑے" نہیں لگتے۔ وزیر کی گاڑی میں اگلی سیٹ پر سکڑ کر بیٹھا ہوا کانسٹیبل جتنا جھکا اور سکڑا ہوا ہو گا وہ وزیر عوام کی نظر میں اتنا ہی طاقتور ہو گا۔ کانسٹیبل کسی گھر کے باہر چوکیداری کر رہا ہو، صاحب کے دفتر کے باہر کھڑا ہو، افسر کی گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھا ہو، کسی اسسٹنٹ کمشنر کو سکول کا دورہ کرا رہا ہو' یہ ایسا زیرو ہے جو دوسرے کو دس بنا دیتا اگر دو کانسٹیبل ہوں تو سو بنا دیتے ہیں۔ یہ کانسٹیبل ہی ہے جو ناکے پر کھڑا تو موٹر سائیکل سوار کیلئے ہلاکو خان ہوتا ہے، وہ اسے تھپڑ مارے اس کے کپڑے اتار کر تلاشی لے اسکے پرس سے پیسے نکال لے، رکشے والے کو دو گالیاں نکال لے، راہ جاتے کسی شریف آدمی کی تلاشی لینا شروع کر دے وہ جسے چاہے اٹھا کر تھانے لے جائے، غریب کے بچے کو پلاسٹک کی پتنگ اڑانے پر بھی گھر کے اندر گھس کر ہتھکڑی لگا لے، خواتین پر سرعام تشدد کرے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کانسٹیبل ایسا کیوں کرتا ہے؟ یہ اس لئے ایسا کرتا ہے کہ معاشرے کے طاقتور افراد اسے ناجائز طاقت کا یقین دلاتے ہیں وہ سکول کے معمولی گارڈ کو اپنی ڈیوٹی سے روکنے کیلئے کانسٹیبل کو ناجائز طاقت دیتے ہیں، افسر کی گاڑی کی اگلی سیٹ پر سکڑ کر بیٹھا ہوا کانسٹیبل جب گاڑی کا راستہ کلیئر کرانے کیلئے باہر نکلتا اور لوگوں کو گالیاں نکالتا ہے، دھکے دیتا ہے تو گاڑی کے اندر بیٹھا افسر اسے اس ناجائز طاقت کا چسکا دیتا ہے۔ یہ کانسٹیبل کسی با اثر بندے کی ڈیوٹی پر معمور ہوتا ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ میں اسکی چھتر چھایا تلے جائز ناجائز کچھ بھی کروں میرا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ یہ کانسٹیبل بیک وقت کتنا کمزور اور کتنا طاقتور ہے، کتنا امیر اور کتنا غریب ہے، کتنا بزدل اور کتنا دلیر ہے۔ یہ ہے ہمارے معاشرے کا کانسٹیبل۔یہ ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی. یہ بم دھماکے میں شہید بھی ہوتا ہے، ڈاکو سے گولی بھی کھاتا ہے اور جعلی پولیس مقابلے میں معصوم لوگوں کو بھی مارتا ہے، جیسے چھری کو سیب کاٹنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور قتل کیلئے بھی' اسی طرح ہمارے معاشرے کا کانسٹیبل امن و عامہ کے سدھار اور بگاڑ دونوں کا ذمہ دار ہے. وزیراعظم عمران خان کے تبدیلیوں کے وعدوں میں ایک وعدہ تھانہ کلچر کی تبدیلی کا بھی تھا، وہی تھانہ جہاں تھانے کے گیٹ سے حوالات کے دروازے تک، ایس ایچ او کے کمرے کے باہر، محرر کی میز سے پہلے' ہر جگہ کانسٹیبل کھڑا ہوتا ہے۔ وہی کانسٹیبل جو عوام کے لئے غضب ناک لیکن افسر کی گاڑی کے آگے سکڑ کر بیٹھا ہوتا ہے۔ آئی جی، ڈی آئی جی، ڈی پی اوز، ایس پیز بدلنے سے سسٹم ٹھیک نہیں ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کانسٹیبلز کے حالات بدلیں، ان کی تربیت کریں، انکی ذہنی و فکری سوچ کو بدلیں۔ انہیں مراعات دیں تا کہ یہ رشوت نہ لیں۔آئی جی پنجاب انعام غنی پولیس اصلاحات اور تھانہ کلچر کی تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں. انھیں اپنے کانسٹیبل پر توجہ دینی چاہیے.سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کا پولیس کی کارکردگی بہتر کرنے کیلئے تھانوں کا سرپرائز وزٹ ایک اچھا عمل ہے. امید ہے انکا سلوگن پولیس کا ہے فرض مدد آپکی ہر کانسٹیبل بھی اپنائے گا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن