پیوستہ رہ شجر سے، اُمیدِ بہار رکھ
25جولائی کو آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ تین بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ کون کامیاب ہوتا ہے اور کون ناکام 25جولائی کو اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ فیصلہ کس کے حق میں آتا ہے۔ آزاد کشمیر کے عوام اور پاکستان میں رہنے والے کشمیری مہاجرین اپنے ووٹ کے ذریعے اس کا فیصلہ کر دیں گے۔ یہ انتخاب یہ فیصلہ بھی کرے گا کہ آئندہ پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں کس کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں اپنی انتخابی مہم کو تیز کر دیا ہے۔ جلسے اور کارنر میٹنگز ہو رہی ہیں اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ ہر پارٹی اپنا منشور دے رہی ہے کہ کامیاب ہوئی تو آزاد کشمیر میں رہنے والوں کیلئے کیا کریگی۔ ترقیاتی پیکج بھی دئیے جا رہے ہیں اور حسبِ روایت ہر جماعت کا امیدوار اپنے ووٹرز کو راغب کرنے کیلئے سبز باغ بھی دکھا رہا ہے۔ لیکن یہ 21ویں صدی ہے، ہرشخص سیاسی طور پر بالغ، بیدار اور اس میںہونے والے اتار چڑھائو سے بخوبی واقف اور مکمل آگاہی رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اپنے ووٹ کا استعمال کیسے کرنا ہے؟یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر میں ہمیشہ اُسی جماعت کی حکومت بنتی ہے جو مرکز یعنی پاکستان میں حکومت کر رہی ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستان میں اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی مقبولیت کا گراف کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو، پی ٹی آئی کا آزاد کشمیر کے اقتدار میں آ جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی۔ آزاد کشمیر الیکشن مہم کیلئے مسلم لیگ (ن) سے مریم نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی سے بلاول بھٹو زرداری میدان میں اُتر چکے ہیں اور مختلف اضلاع میں انہوں نے اب تک بڑے کامیاب جلسے کئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے اُسکے متعدد وفاقی وزیر اور خود وزیراعظم عمران خان نے بھی کئی انتخابی جلسوںسے خطاب کیا اور اپنی جماعت کیلئے ووٹ مانگے۔ اب یہ منحصر ہے آزاد کشمیر کے عوام پر کہ اکثریت کس کو دلاتے ہیں۔ پُرامید اگر عمران خان ہیں تو مایوس مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری بھی نہیں۔ مریم نواز کرائوڈ اکٹھا کرنے کا سلیقہ رکھتی ہیں۔ اُنکے نام اور خطاب پر ایک بڑا مجمع ہو جاتا ہے جب اُن کا خطاب شروع ہوتا ہے تو جلسہ گاہ میں موجود لوگوں میں ایک ولولۂ تازہ پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی آزاد کشمیر کے طوفانی دورے کر رہے ہیں۔ لوگ انہیں بھی سننے آتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے چیئرمین بلاول کو جو پذیرائی مل رہی ہے اُسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پی پی پی اب بھی زندہ ہے۔ اگرچہ پنجاب میں اُس کا بُرا ہی حال ہے۔
’’پیوستہ رہ شجر سے، اُمیدِ بہار رکھ‘‘ کے مصداق دل کے چراغ اُمیدوں سے ہی جلتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری سیاست میں ناصرف اپنی بلکہ اپنی پارٹی کی بھی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ کس قدر کامیاب ہوتے ہیں۔ آزاد کشمیر اور پھر 2023ء میں پاکستان کا الیکشن اس کا فیصلہ کر دیگا۔ دوسری جانب نواز شریف کی عدم موجودگی میں مریم نواز شریف کا سیاست میں کردار اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم نواز نے سیاست میں اپنے کردار کو منوایا ہے۔ اُن کے نام پر جلسہ گاہوں میں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور اُنہیں بڑے جوش و جذبے اور شوق سے سنتے ہیں۔ مریم کو تقریر کا ڈھنگ آتا ہے۔ وہ جو بھی بات کرتی ہیں اُس میں ایک سلیقہ اور طریقہ ہوتا ہے۔ الفاظ کا زیروبم سنبھالنا بھی انہیں خوب آتا ہے۔ رہی پی ٹی آئی کی بات۔ تو وہ اس وقت اسلام آباد میں ہے اور وفاق پر حکومت کر رہی ہیں۔ پنجاب اور کے پی کے میںبھی اسکی حکومت ہے۔ بلوچستان میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت کر رہی ہے ۔اُس کے وزیر ، جن میں مراد سعید اور علی امین گنڈا پور سرفہرست ہیں۔ آزاد کشمیر میں جلسوں کی بہار لے آئے ہیں۔ ترقیاتی پیکج دئیے جا رہے ہیں۔ ایک پل بنانے کیلئے علی امین گنڈا پور نے 50لاکھ نقد بھی دئیے ہیں۔ اگرچہ یہ سب کچھ الیکشن قوانین کی خلاف ورزی ہے لیکن الیکشن میں قانون کون دیکھتا ہے۔ سب کو جتنے کی ہوتی ہے۔ چاہے کوئی بھی حربہ کیوں نہ استعمال کرنا پڑے۔کیا آزاد کشمیر کے الیکشن کی تاریخ ماضی کی روایات کو برقرار رکھتی ہے یا کچھ نیا ہونیوالا ہے۔ بس، اب کچھ دنوں کا انتظار ہے۔ سب کچھ سامنے آ جائیگا۔ بہرحال معرکہ سخت ہونے جا رہا ہے۔ ہر جماعت اپنی جیت کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ الیکشن میں دھاندلی بھی ہوتی ہے جو یقینا اس بار بھی ہو گی۔ آزاد کشمیر الیکشن کمیشن جتنی بھی کوشش کر لے اس ’’دھاندلی ‘‘ کے وائرس کو شاید حسب روایت، حسبِ معمول روکنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اور ہارنے والا جیتنے والے پر حسب روایت، حسب معمول ’’دھاندلی‘‘ کا الزام لگائے گا بھی اور دہرائے گا بھی۔ اللہ کرے سب ٹھیک ہو جائے اور وہ وقت بھی آئے جب ہارنے والا، جیتنے والے کو مبارک باد دے رہا ہو، ایسا ہو گیا تو سمجھیں گے پاکستان تبدیل ہو گیا۔ واقعی تبدیلی آ گئی۔