تمام منتخب سیاست دان بہادر افواج کے شانہ بشانہ
ABSOLUTELY NOT نے علاقے کو امن کا پیغام دیاہے۔بلاتفریق تمام منتخب سیاسی رہنمائوں کی اجلاس میں شرکت نے اس بات کی طرف بھی اشارہ دیا ہے میںکم ا ز کم منتخب اراکین میں کوئی ملک دشمن نہیں۔ جس سنگین صورتحال کا ذکر کیا جارہاہے اس میں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حزب اختلاف ہی نہیں بلکہ حکومت کو بھی اس پر سوچنا چاہئے کہ جمہوریت میں اختلافات اپنی جگہ مگر چور ، ڈاکو کی گردان چھوڑ کر ملک کی سلامتی کی خاطر سیاسی لوگوں کو ایک صفحے پر ہونا چاہئے ۔ سپہ سار نے یہ بہتریں پیغام تمام متعلقہ لوگو ں کو ہے کہ افواج پاکستان ملک کی سرحدوں اور عوام کی محافظ ہے اپنے فساد کے دوران انہیں تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ غیر ملکی اخبارات میں شائع ہونیوالے بعض مضامین سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کے اشارے مل رہے ہیں۔ افغان طالبان اب کابل کے قریب اپنی پوزیشن مستحکم کر رہے ہیں لیکن بظاہر ایسا نظر نہیں آتا کہ طالبان کابل پر حملہ کر سکیں گے۔افغان طالبان کے علاوہ دیگر گروہ جیسے القاعدہ اور داعش سے تعلق رکھنے والے شدت پسند بھی انہی علاقوں میں متحرک ہیں۔ طالبان افغانستان میں اقتدار میں آتے ہیں یا نہیں یہ ابھی واضح نہیں۔ پاکستان کی حکومت کی کوشش ہوگی کہ اسکے اثرات کم سے کم سامنے آئیں اور اس کیلئے پاکستان میںگذشتہ پانچ سال سے اسکی تیاری کی جا رہی ہے جس میں پاک افغان سرحد پر خار دار تار لگائی جا رہی ہے۔ اسکے علاوہ قبائلی علاقوں میں ایف سی آر کے قوانین ختم کرکے ان علاقوں کا انضمام صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ کر دیا گیا ہے، جس کے بعد وہاںملک کاقانون نافذ ہوگیا ہے۔ اس بات کے باوجود کہ افغان طالبان افغانستان کے ان علاقوں میں مضبوط ہیں جو پاکستانی سرحد کے قریب واقع ہیں۔ ان اقدامات سے پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوگی۔ بلاشبہ آپریشن ضرب عضب اور ردَالفساد کی کامیابی سے تکمیل اور پاک افغان سرحد پر نصب کی گئی باڑ سمیت سیکورٹی فورسز کے اقدامات دور رس نتائج کے حامل ثابت ہوں گے تاہم یہ خیال رہے کہ یہ محض افغانستان کا معاملہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دشمن اس کی آڑ لے کر صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے جبکہ ڈو مور کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان امریکہ کو پہلے ہی لال جھنڈی دکھا چکے ہیں۔امریکہ جاتے جاتے یہ بھی دھمکی دے رہا ہے کہ اگرافغانستان میں حالات خراب ہوئے تو وہ واپس بھی آسکتے ہیں۔ اس صورتحال میں ہندوستان اپنی بغلیں بجانا چھوڑ دے۔ اسے افغانستان میں اپنا لگایا سرمایہ ڈوبتا نظر آرہا ہے ۔ مگر وہ اپنی حرکتوں سے باز آنے سے قاصر ہے مزید بے وقوفی کررہا ہے افغانستان کی جنگ کو ہوا دینے کیلئے اسلحہ سے لیس طیارے افغانستان پہنچ رہے ہیں جو ’’امن پسند ‘‘دنیا کو نظر نہیں آرہے ۔بھارت اور کسی بھی دہشتگردی کے علاج ہماریٍ سیکورٹی ادارے موجود ہیں جو ہر سازش کا منہ توڑ جواب دینے کو ہر وقت تیار ہیں۔ بھارت اپنی روائتی 2نمبری سے باز آنے سے رہا اسے جہاں موقع میسر ہوتا ہے پاکستان کاامن تباہ کرنے پر اسکی نگاہ ہوتی ہے وہ ایک جانب افغانستان سے دم دبا کر بھاگ رہا ہے تو دوسری جانب طالبان سے مذاکرات کا خواہاں ہے تیسری جانب اپنے طیاروں سے طالبان کیخلاف استعمال کرنے کیلئے افغان حکومت یا متحارب گروپوں کو اسلحہ بھی فراہم کررہا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کا تاریخی جملہ ABSOLUTELY NOT پاکستان کے تابناک مستقبل کی طرف نشاندہی ہے ، بشرطیکہ کہ ہم مستقبل کے سنگین حالات پر نظر رکھتے ہوئے اس پر قائم رہیں ۔صدر جو بائیڈن کا وزیراعظم عمران کے ساتھ حالیہ رویہ بھی ہمارے امریکہ کے ساتھ مستقبل کے ممکنہ تعلقات کی خرابی کی نشاہی کرتا ہے۔ جوںہی ستمبر میں امریکی فوج کا آخری فوجی خیر و عافیت سے نکلے گا تب وہ کھل کر پاکستان کیخلاف سامنے آئیگا ۔ چین کیساتھ سی پیک کی کامیابی اور افغانستان میں دیرپا امن کیلئے پرخلوص کوششیں ہمارے بہتر مستقبل کیلئے ضروری ہیں۔ روس کی تمام ریاستیں افغانستان کے راستے گوادر سے تجارت کرکے پاکستان کو مستقبل کا زبردست اقتصادی اور سیاسی قوت بنا سکتی ہے۔ امریکہ یا مغرب کے ساتھ افغانستان کا دو صدیوں پر محیط تعلق اور پاکستان کی انکے ساتھ سات دھائیوں سے آقا اور غلام جیسا تعلق اور اسکے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں جبکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات لسانی، جغرافیائی، تاریخی، عقیدے، و تہذیب سے وابستہ ہیں اور پہلی بارہماری زندگیوں میں ایک بہتر تبدیلی کے آاثار نظر آ رہے ہیں جو کہ بلا شبہ چین کے مرہون منت ہیں اس لئے وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم امن ا ور تجارت کے راستے پر چلیں نہ کہ امریکہ کے عالمی جنگوں کے ایندھن بنے رہیں۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب سازش ہوتی ہے تو ہر چیز کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ جسطرح روس کیخلاف کفر اور اسلام کی جنگ کا واویلا پیٹ کر علاقے کو جنگ و جدل کا ماحول دیا گیا تھا کہیں چین کے پڑوس کو بھی کل کسی نادیدہ انداز میںکفر اور اسلام کی جنگ نہ بنایا جائے تاکہ CEPEC کو خداناخواستہ کوئی نقصان نہ پہنچے۔ (ختم شد)