اللہ سے تجارت
غربت کے خاتمہ اور سماجی ترقی کے حوالے سے ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام بے حد احترام سے لیاجاتاہے۔ اخوت کی بنیاد رکھ کر انہوں نے ایک غیرمعمولی کارنامہ سرانجام دیا۔ آج اس پروگرام کے توسط سے لاکھوں گھرانے غربت سے نجات پارہے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی کاوشیں یہیں تک محدود نہیں۔ حکومت پنجاب نے جب مستحق طالب علموں کیلئے وظائف کا ایک ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا تو اس کی سربراہی کیلئے بھی انہی کا نام آیا۔ پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ نامی اس ادارے کوانہوں نے کمال خلوص اور محنت سے آگے بڑھایا۔ ڈاکٹر امجدثاقب ایک دانشور بھی ہیں انکی کئی کتب مشہور ہوئیں اور میرے زیرمطالعہ رہیں۔ انکی نئی کتاب کام یاب لوگ، چنیوٹی انٹرپرینور شب دیکھ کر پہلے تو مجھے حیرت ہوئی کہ ایک شخص جو اپنی زندگی غریبوں کیلے وقف کرچکاہے، کاروباری لوگوں کے بارے میں کیوں لکھنا چاہتاہے لیکن جب میں نے یہ کتاب پڑھی تو واضح ہواکہ یہ موضوع بھی دراصل غربت کے خاتمہ سے جاملتاہے وہ کامیاب افراد کو مثال بناکر غریبوں کو محنت اور خودانحصاری کا پیغام دینا چاہتے ہیں تاکہ غربت کے اندھیروںمیں امید کے دیئے روشن ہوسکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت کے علاج کیلئے قومی معیشت میں بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں، محرومی کے خاتمہ اور سماجی اصلاح کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ ہر ریاست کو اچھی حکمرانی کی داغ بیل ڈالنی چاہیے۔اس امر میں قطعی دو آراء نہیں کہ اسی قوم کا مستقبل روشن ہوگا جو معاشی اور سماجی طور پر مضبوط ہوگی۔ محنت جست جو یقین اور اخلاص، اگر ہمارے دامن میں یہ خوبیاںہوں تو غربت کو شکست دیناعین ممکن ہے۔پاکستان کو ایک خوشحال اور فلاحی ریاست بنانا ہماری زندگی کااہم مقصد ہے۔ڈاکٹر امجدثاقب نے اپنا قلم، کسی کی ستائش میں نہیں بلکہ ایک خوبصورت سماج کی تعمیر کیلئے اٹھایا۔ ان مجبور لوگوں کیلئے جو تاریک راہوںمیںمارے جاتے ہیں اور انکے جو ابھی زاد راہ کے متلاشی ہیں ان کہانیوں کے پس منظر میں مجھے ایک عظیم پاکستان تعمیر ہوتا ہوا نظرآتاہے۔یہ دنیا اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس میں خیر اور شرکو باہم مخلوط کردیاگیاہے۔مصلح کا کام یہ ہے کہ وہ خیرکو چھانٹ کر الگ کرلے اور خیرہی کی طرف دعوت دے۔ قرآن نے مال وزر کو فتنہ بھی کہا اورخیر بھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی صفوں میں ایک طرف حضرت ابوذرغفاری ؓ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ جیسے حضرات تھے جن کا فقر ضرب المثل تھا تو دوسری طرف سیدنا عثمان ابن عفان اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ جیسے اغنیاء کی بھی کمی نہیں تھی۔ہمارا عجیب حال ہے کہ ہم اہل زر کو حقارت کی نظر سے بھی دیکھتے ہیں اور ان جیسا بن جانے کی تمنا میں ہمارا دل بھی مچلتاہے ایک سچے مصلح کی طرح ڈاکٹر امجدثاقب نے پاکستان کے امیر ترین لوگوں کی کامیابی کے پس پردہ خیرکودریافت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ایک زمانے میں ڈاکٹرصاحب نے خواجہ سرائوں جیسے طبقے کی دست گیری کا بیڑا اٹھایا تھا اب ایک بہت بڑا کام انہوں نے یہ کیا ہے کہ پاکستان کے امیر ترین لوگوں کے حالات کا ایک ایسا انسائیکلوپیڈیا مرتب کردیاجس کے صفحات میں ہمیں اس سوال کا جواب مل سکتاہے کہ یہ لوگ معاشی پستی کے پاتال سے اٹھ کر دولت وثروت کے ساتویں آسمان تک کیسے پہنچے۔
کامیاب لوگ پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ موضوع ایسا نہیں تھاکہ اس کونظر انداز کردیاجاتا۔ یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے بھوک کا علاج بھیک میں تلاش نہیں کیا انہوں نے اپنی ذات پر اعتماد اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کو اپنی طاقت بنایا۔ کہانیاں سب کی ایک جیسی ہیں کردار، نام اور مقامات مختلف ہوسکتے ہیں کوئی گجرات کاٹھیا واڑ سے نکلا، کوئی دہلی سے کوئی چکوال سے کوئی پانی پت سے۔ چنیوٹ کی مٹی میں جانے کیا کشش تھی جس نے سب کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ یہ عجیب لوگ تھے جنہوں نے قلی بن کر لوگوں کا بوجھ اٹھایا، مزدوری کی فاقے جھیلے، فٹ پاتھوں پر سوئے، یخ بستہ راتوںمیں بدبودار کھالوں پر بیٹھ کر ٹرکوں پرسفرکیا لیکن دست سوال دراز نہیں کیا، امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، یہ معمولی لوگ نہیں تھے۔ صبر انکسار، سخت محنت، خود اعتمادی اور خدا اعتمادی، ناقابل شکست حوصلہ مندی، ڈوب کر ابھرنے کی صلاحیت صلہ رحمی اسراف سے گریز اور سخاوت، ایثار، ایک دوسرے کو آگے بڑھانے کا جذبہ ، دیانت داری، راست بازی، بزرگوں کی تعظیم مضبوط خاندانی نظام یہ وہ باتیں ہیں جن کے باعث یہ سب بام عروج پر پہنچے۔یہ کامیاب لوگ اس وطن کے محسن ہیں آج پاکستان میں جتنی جدت روشنی اور ترقی نظر آتی ہے اس میں بے مثال لوگوں کا حصہ بہت بڑا ہے۔
یہ ایک خوشگوار اتفاق ہے کہ پاکستان کے ان کامیاب لوگوں کی کہانی لکھنے کا بیڑا پاکستان کی تاریخ کے کامیاب شخص نے اٹھایا۔یہ کام ڈاکٹر امجدثاقب کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ اس کو بھی چنیوٹ کی مٹی کا فیضان ہی سمجھنا چاہیے کہ وہاں افسری کرتے کرتے ڈاکٹر امجدثاقب کو بھی آج سے پندرہ سال پہلے تجارت کاخیال آیا اور تجارت بھی اللہ کے ساتھ۔