آزاد کشمیر انتخابات اور سیاسی جماعتیں
آزاد کشمیر کے الیکشن پی ٹی آئی اور ن لیگ دونوں کو لڑ گئے ہیں۔ البتہ ایک انتہائی حساس الیکشن کے مو قع پر بلاول بھٹو کا منظر سے غائب ہو نا نہا یت اچنبھے کی با ت ہے۔ آزاد کشمیر کے الیکشن بہت معنی رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے الیکشن ہو نے نہ ہونے سے پاکستانی سیاست پر کو ئی اثر نہیںپڑتا لیکن آزاد کشمیر کے الیکشن سے پاکستانی سیاست با لواسطہ اور بلا وا سطہ دونوں طرح متا ثر ہو تی ہے۔ الیکشن کے مو قع پر بلا ول بھٹو کا بِلا جواز امریکہ جا نا اور با لکل لو پرو فا ئل میں جانا ایک سوا لیہ نشان ہے۔ امریکہ جا نے کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ بلا ول بھٹو کو سیا سی بلو غت کی بنیاد پر اندازہ ہے کہ وہ آزا د کشمیر میں الیکشن ہا ر جا ئیں گے لہٰذا آزا د کشمیر میں ملنے وا لی شکست سے بچنے کا یہی وا حد طریقہ ہے۔یا پھربقول پی ٹی آئی بلا ول بھٹو امریکہ میں اپنے فلیٹ کو بچا نے کے لیے گئے ہیں۔ اس وقت پیپلزپارٹی کی دوسرے درجے کی قیا دت فارمیلٹی کے لیے الیکشن مہم چلا رہی ہے۔ اصل معرکہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہے۔ پی ٹی آئی کی آزاد کشمیر میں وا ضح طو ر پرپو زیشن کمزور ہے ۔ن لیگ کو مریم نواز نے پو ری طو ر پر ہا ئی جیک کر لیا ہے۔ شہباز شریف، حمزہ شہباز اور ان کے ساتھی عملی طو ر پر ن لیگ سے آئوٹ ہیں۔ شہبا ز شریف کی سیاست بھی اب دم توڑ چکی ہے۔ اُنھیں اپنے بھا ئی کی آشیر باد حا صل نہیں ۔ نواز شریف اب مریم نوا ز کو آگے رکھنا چا ہتے ہیں۔یہ بات شہباز شریف کے لیے الارمنگ ہے لیکن اگر مکا فا تِ عمل کا سلسلہ خدا نے نہ رکھا ہو تا تو ہر طا قتور، ہر مقتدر آدمی فرعون ہو تا۔ مریم نوا ز کے بہت سا رے خواب ہیں۔ مریم نواز نے دولت اور طا قت کے بل پر اپنے نوئے فیصد خوا بوں کو پورا کیا ہے۔ آج بھی وہ اپنے باپ کا نام، دولت، اختیارات اور سیا سی حربوں سے کا میابی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مریم نواز نے آزاد کشمیر کے کامیاب جلسے کیے ہیں اور اُن کی اکثریت عددی صورت میں دکھائی دے رہی ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ مریم نواز پو ری تیا ری اور طا قت سے میدان میں اُتری ہیں۔ مریم نواز نے اپنی خاندانی روا یا ت کو قا ئم رکھتے ہو ئے اخلاقی اقدار کو قا ئم رکھا ہے اور با وقار طریقے سے الیکشن مہم چلائی ہے۔ مریم نواز نے زبان کا غلط استعمال نہیں کیا بلکہ پی ٹی آئی کوبڑے اچھے طریقے سے منہ تو ڑ جواب دیا ہے۔ مریم نواز ثبوت کے ساتھ با ت کر تی ہیں اور اپنی تقریر دلا ئل و بُرا ہین نیز اچھی شستہ اردو میں کرتی ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کی اردو گلابی ہو تی ہے۔ مونث کو مذکر اور مذکر کو مو ُنث بولتے ہیں۔ما ضی حال، مستقبل کے صیغوں کا بھی خیال نہیں رکھتے اور جملوں میں جو بے ربطگی ہو تی ہے۔وہ بھی معنی کو مفُہوم سے دور کر دیتی ہے۔ لیکن زبان و بیان یا لب و لہجے کی اغلاط مسلسل کو معا ف کیا جا سکتا ہے لیکن عمران خان اپنی تقاریر، بیا نات اور پیغا ما ت میں جو لطا ئف خفیف، شدید چھوڑتے ہیں۔ وہ قوم کے لیے کا فی نا قا بل برداشت ہو تے ہیں۔ ازبکستان سے وا پسی پر با غ میں اجتماع سے خطا ب کر تے ہو ئے انہوں نے کہا کہ اب ہم غریب ملکوں کو امداد دیا کریں گے کیونکہ ایسا پاکستان بننے جا رہا ہے۔ اس بیان پر پو ری قوم جو غربت اور مہنگا ئی سے تنگ ہو کر رُو رہی تھی۔ سب کا یکا یک ہا نسا نکل گیا۔ بجٹ کے دوسرے دن ہی قوم پر مہنگائی کا زلزلہ آگیا۔ آمدنی کے نام پر پھوڑی کوڑی نہیں بڑھا ئی گئی۔ آج بیس تا ریخ تک کسی سرکاری ملا زم یا پینشنرز کو دس فیصد کا اضافہ بھی نہیں ملا جو محض چند ہزار بنتا ہے۔ پاکستان میں ہر روز تین درجن سے زا ئد افرادمحض اس لیے خودکشی کر لیتے ہیںکہ انُ کے پاس روٹی کھانے کے پیسے نہیں ہو تے۔ یہ تعداد ہر سال ہزاروں میں بنتی ہے۔ اس ملک میں سفیدپو ش طبقے کی تعداد آٹھ کروڑہے۔ یہ لو گ اپنی عزتیں سنبھال کر بڑی مشکل سے چٹنی یا دال روٹی کھا کر گزا رہ کرتے ہیں۔ سات کروڑ افراد متوسط طبقہ ہیں۔ صرف کروڑ افراد عیا شی کرتے ہیں۔ وہ سیاستدان ہیں، بزنس مین ہیں، کر کٹرز ہیں، ادا کار ہیں۔ چند صحافی ہیں۔ڈا کٹرز وکیل تا جر ہیں۔ ایک کروڑ پاکستانی عیا شی سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ انیس کروڑ افراد کی زندگی مشکل ہے۔ وہ اس بڑ ھتی ہو ئی مہنگا ئی، بیروزگاری، ٹیکسوں سے نالاں ہیں۔ترقی وزیروں مشیروں، ارکان پارلیمنٹ نے کی ہے۔ جن کی تنخواہوں، فنڈز اور مرا عا ت میں کئی سو گنا اضافہ کیا گیا ہے۔