• news
  • image

فراڈ کے نئے طریقے 

جب ٹیلی فون نیا نیا آیا تھا اور موبائل نہیں.تھے تو دیگر شہروں.میں بات کرنے کے لیے آپریٹر سے کہہ کر کال ملانا پڑتی تھی۔ بعد میں اکثر گھر میں فون پر ان کی خاندانی باتیں شئیر کی جاتیں اور انھیں۔حیران کیا جاتا۔ ظاہر ہے یہ کام ٹیلی فون آپریٹر ہی کرتے تھے۔ اس ضمن میں دو رائے ہے ہی نہیں۔ مجھے ایک دل چسپ واقعہ کے ذریعے حتمی یقین ہے۔ میری بیٹی مجھے بتایا کہ جب آپ گھر نہیں ہوتیں تو ایک انکل فون کرکے تنگ کرتے ہیں۔ اگلے ہی دن.میں نے چھٹی کی۔ مقررہ وقت پر فون آیا۔ میری آواز پر ہیلو کے علاوہ اس نے کچھ نہیں بولا لیکن فون بند کرتے ہی میں نے فوراً اپنے شوہر کو فون کیا اور کہا کہ اسے ٹریس کروائیں یہ ٹیلی فون آپریٹر ہے اور ہمارا فون ٹریس کرواتا ہے۔ایسا ہی نکلا اس شخص نے بہت منت سماجت کی کہ وہ دوبارہ کسی کے ساتھ ایسا نہیں کرے گا ڈائریکٹ ڈائلنگ اور موبائل کے ساتھ ایسے واقعات تو ختم ہوتے گئے لیکن جدید فراڈ کا آغاز ہوا۔ اب آئیے بنکوں کے معاملات کی طرف۔ بنک اکائونٹ میں آن لائن ٹرانزکشن شروع ہونے کے ساتھ فراڈ کے کتنے ہی دروازے کھل چکے ہیں .ایک شخص نے گاڑی کی پیمنٹ آن لائن کرنا تھی .وہ بنک جا کر تمام کارروائی مکمل کرتا ہے تا کہ اسے آن لائن ٹرانزکشن کی سہولت فراہم ہو جائے۔شام کو ایک انجان موبائیل نمبر سے کال آتی ہے کہ اپنی معلومات کی تصدیق کیجیے۔چونکہ نمبر بنک کا نہیں ہے اس لیے وہ تصدیق نہیں کرتا۔ اگلے دن وہ بنک جا کر معلومات لیتا ہے تو بنک اسے بتاتا ہے کہ اب اسے مطلوبہ سہولت نہیں مل سکتی کیونکہ وہ کال پر تصدیق نہیںکر سکے۔دوسرا واقعہ ایک خاتون کو ایسے ہی کسی نمبر سے فون آتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ بنک سے کال ہے جلدی سے اپنے اکائونٹ کی تصدیق کیجیے۔خاتون تصدیق کرتی ہے اگلے 25 منٹ میں۔اس کے اکائونٹ سے 5 لاکھ روپیہ اڑا لیا جاتا ہے۔یہ سچ ہے عام صارفین کو بنک ایک وقت میں 20 ہزار کی حد فراہم کرتا ہے۔خاتون کے شوہر وکیل تھے انھوں نے بنک پر مقدمہ کر دیا اور ہرجانے کا دعوی بھی کیا۔بعد میں بنک نے معافی مانگ کر معاملہ ختم کیا۔ تیسرا واقعہ ایک خاتون کو بار بار انجان نمبر سے کال آتی ہے کہ اکائونٹ کی تصدیق کیجیے۔وہ بنک جا کراس رویے کی شکایت کرتی ہیں اور اپنی آن لائن ٹرانزکشن کو ختم کرنے کا کہتی ہیں جس پر بنک کے آفیسر انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں فون کالز کو وجہ بنا کر یہ سہولت ختم نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہیں جن میں آپ گھر بیٹھے ہیں۔ آپ کا اے ٹی ایم کارڈ آپکے پاس ہے لیکن اچانک ایک میسیج کے ذریعے آپ کو خوش خبری ملتی ہے کہ آپکے اکائونٹ سے رقم نکلوا لی گئی ہے۔آپ بنک جائیں تو آپ کی شنوائی تو دور کی بات وہ فورا آپ کا ریکارڈ تھما دیتے ہیں کہ آپ نے پیسے نکلوائے ہیں۔ یہ صرف ایک طرف ہونیوالی کرپشن ہے ایسی بے شمار مثالیں مختلف محکمہ جات میں بکھری ہوئی ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ کے متعلق خبردار کرنے کے باوجود ایسے پیغامات اسی شدو مد سے جاری ہیں بلکہ اب انکی رسائی واٹس ایپ تک بڑھ گئی ہے جہاں آپ کا نام بتایا جاتا ہے اور پہچان سے لاعلمی پر آپ کا شناختی کارڈ نمبر بتایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب اندر کے لوگ ہی ہیں۔ ووٹرز لسٹوں، (ب) فارم شناختی کارڈ اور یونین کونسل سے لوگوں کے انگوٹھوں کے نشانات عملہ کی ملی بھگت سے چرا کر استعمال کر رہے ہیں۔ بات فنگر پرنٹس سے بھی آگے نکل آئی ہے فراڈ کرنیوالے حاصل کردہ انگوٹھوں کے نشانات کو سب سے پہلے ایکسرے پیپر پر کاپی کیا جاتا ہے جس کے بعد سیلیکون کا استعمال کرکے فنگر پرنٹس کی جھلی بنائی جاتی ہے اور اس جھلی کو اپنے انگوٹھوں پر بڑی ہی مہارت کے ساتھ چسپاں کیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان حاصل کردہ فنگر پرنٹ سے مختلف موبائل کمپنیوں سے بائیو میٹرک کرا کر موبائل سمیں ایشو کروا لیتے ہیں جن کو مختلف غیر قانونی کاموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ایف آئی اے سائبر ونگ کے ذریعے یہ بھی بتایا گیا کہ شہریوں کو کروڑں روپے سے محروم کرنے میں ان فراڈ کرنے والوں کے ساتھ مختلف بینکوں اور موبائل فون کمپنیوں کے ملازمین بھی ملوث پائے گئے ہیں جن کی ملی بھگت سے شہریوں کی ذاتی معلومات تک ان فراڈ کرنے والوں کو فراہم کردی جاتی ہے۔گھریلو ملازمین کے فراڈ کی تو کوئی حد ہی نہیں ۔
 ہاتھ اوپر اٹھا دینا اور الزام تراشی کے بہائو میں جس پر چاہیں الزام رکھ دیں .ہمارے حکمرانوں کے پاس تاویلات ہیں۔آگہی کی بجائے الزامات کی بھر مار . پھر کسی بات یا مدعا پر معذرت یا شرمساری کا رویہ ڈھونڈے سے نہیں ملتا .آوے کا آوا بگڑا ہوا ہی نہیں غیر محفوظ بھی ہے۔ جدت کا نہ جانے کون سا ریلا بہا کر لے جائے اور ہماری داستان تک نہ رہ جائے .کیونکہ ہم سوچنے سمجھنے کی ہر حد پار کر چکے ہیں .
رہے نام اللہ کا

epaper

ای پیپر-دی نیشن