مرد حر
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں آج کے دور میں بہت کم ایسی شخصیات ملیں گی جنہیں ان کی ذاتی اور ملک و قوم کیلیے ادا کی جانیوالی خدمات پر انکے سیاسی و نظریاتی مخالفین بھی سراہے بغیر نہیں رہ سکے۔ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری کی قومی سیاست میں آمد سے قبل کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ اپنے چند اقدامات سے پاکستان کی پارلیمانی سیاست کو وہ دوام بخش جائینگے جو ابھی تک شاید کوئی اور سیاستدان یا جماعت نہیں کر سکی۔وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں انکی طویل سیاسی اور قید و بند کی صعوبتیں پوری آن بان اور شان سے برداشت کرنے پر اپنے دو ر کی قد آور شخصیت مجید نظامی مرحوم نے "مرد حر" کا خطاب دیا تھا اور مخدوم جاوید ہاشمی کہتے تھے انہیں سمجھنے کیلئے پاکستانی سیاست میں پی ایچ ڈی کرنا پڑیگی ،وہ جس طرح ماضی میں سیاسی انتقام کی بنیاد پر بنائے گئے جھوٹے مقدمات کا سامنا کر رہے تھے۔ آج بھی وہ تمام تر جسمانی بیماریوں کے باوجود عدالتوں میں انصاف کیلئے دھکے کھا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی اپنی اعلی عدلیہ سے ہمیشہ کی طرح انصاف کی امید رکھتی ہے۔26جولائی 1954کو بھٹو شہید کے قریبی دوست اور نظریاتی ساتھی حاکم علی زرداری کے گھر پیدا ہونیوالے آصف علی زرداری آج اپنی (67ویں) سالگرہ منانے جا رہے ہیں۔انکی سیاسی زندگی کی ابتدا غیرمعمولی طور پر 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں ہوئی جب انہوں نے نواب شاہ کی صوبائی نشست سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد واپس لے لیے تاہم باقاعدہ سیاسی زندگی کا آغاز انہوں نے 1988میں کیا اور 1990 میں وہ بطور ممبر قومی اسمبلی پاکستانی سیاست میں وارد ہوئے,وہ بلخ شیر مزاری کی نگران حکومت میں اور پھر بینظیر بھٹو شہید کے دوسرے دور حکومت میں وزیر ماحولیات اور سرمایہ کاری رہے۔ 1997سے 1999 تک ممبر سینٹ بھی رہے۔آصف زرداری کی سیاسی زندگی پر نظر دوڑائیں تو 1990 تا 2004کے چودہ برسوں میں انکی زندگی ہنگامہ خیز۔الزامات اور مقدمات سے بھر پور رہی۔سابق صدر غلام اسحق خان نے بی بی شہید اور آصف علی زرداری پر کرپشن کے 19ریفرنس دائر کیے جن میں سے ایک بھی ثابت نہ ہو سکا۔انہوں نے اس سیاہ دور میں پاکستان کی مختلف جیلوں میں 11برس تک قید و بند اور اذیت کی صعوبتیں برداشت کیں،سیاسی انتقام کی بنیاد پر پاکستان میں اتنی طویل قید آصف زرداری کے علاوہ کسی اور کے حصے میں آج تک نہیں ا سکی،ان کا سب سے بڑا سیاسی و جمہوری کارنامہ اپنے دور صدارت (9ستمبر 2008تا 8ستمبر 2013)میں اپنے اسمبلیاں توڑنے کے اختیارات پارلیمنٹ کو دینے اور 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو مالی خود مختاری دینا ہیں جس کے باعث اب صوبوں میں ترقی کی رفتار میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور محاصل کا ایک بڑا حصہ ملنے کے باعث انہیں بار بار مرکز کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا۔آغاز حقوق بلوچستان پیکج بھی پیپلز پارٹی کے دور حکومت کی دین ہے اور یہ اعزاز بھی بی بی شہید اور صدرآصف علی زرداری کی حکومت کو جاتا ہے کہ انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 150 فیصد اور زرعی اجناس کی قیمتوں کو کئی گنا اضافہ کیا۔ آصف علی زرداری عارضہ قلب اور دیگر بیماریوں کے باوجود آج بھی نواز دور کی طرح سیاسی اور انتقامی بنیادوں پر بنائے جانیوالے مقدمات میں کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد کی عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔ تمام تر میڈیا ٹرائل اور کردار کشی کے باوجود مرد حر بیرون ملک جانے کی بجائے ہر عدالت میں انصاف حاصل کرنے کیلئے پہنچتا ہے۔تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود پورا پاکستان آج دیکھ رہا ہے کہ سیاسی مخالفین اور حکومتی شخصیات کیلیے انصاف کے دوہرے معیار روا رکھے جا رہے ہیں مگر آفرین ہے آ صف علی زرداری چٹان کی طرح اپنے خلاف سیاسی بغض و عناد پر مبنی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔