تنقید کی حدود ہوتی ہیں، اپوزیشن کے پاس مسئلہ کشمیر، افغانستان کا حل ہے تو بتائے
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اپوزیشن کا کام حکومت پر نکتہ چینی ہے لیکن اس کی حدود و قیود ہوتی ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کے باوجود مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مکمل ہم آہنگی ہے ۔ پارلیمنٹ نے اس حوالے سے متفقہ قراردادیں پیش کی ہیں۔ ہمیں اس معاملے پر سمجھداری سے آگے بڑھنا ہے۔ انتخابات کے دوران وقتی طور پر ایک سیاسی ابال آتا ہے۔ اس میں سخت جملے بھی کہے جاتے ہیں۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ ذاتی حملوں اور ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے پاکستان کا موقف کمزور پڑے۔ کشمیر اور افغانستان کی صورت حال پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر بریفنگ کے لیے ملک کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو دفتر خارجہ کے دورے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کا فورم بہت اہم ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اس فورم میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں الجھ جاتے ہیں، بحث موضوع سے ہٹ کر ذاتیات پر آجاتی ہے۔ اس کا فائدہ پاکستان کے مخالفین اٹھاتے ہیں۔ اپوزیشن کا یقینی طور پر افغانستان کے مسئلے پر نکتہ نظر ہوگا۔ ان کے پاس کوئی حل ہے تو بتائے۔ کشمیر کے معاملے پر نکتی چینی ضرور کیجئے لیکن حل بھی بتایئے کہ موجودہ حالات میں ہمارے پاس کون سے آپشن ہیں۔ اگر ہم مسائل کے حل پر بات کریں تو یہ بہتر ہوگا، ایک دوسرے کو غدار کہنے کا فائدہ نہیں۔ کشمیر پر ہمارا موقف بڑا واضح ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم انتخابی سیاست میں حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے پاکستان کے مفادات کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔