اوکاڑہ یونیورسٹی کی انفرادیت!!!!
اوکاڑہ یونیورسٹی نے صرف پانچ سال کے مختصر وقت میں تعلیمی شعبے میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ اٹھارہ سو کنال رقبے پر پھیلی ہوئی یہ یونیورسٹی لوئر باری دو آب، ملتان روڈ اور رینالہ خورد کے سنگم میں واقع ہے۔ یونیورسٹی اس لیے بھی دیگر جامعات سے مختلف ہے کہ یہاں طالب علموں کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کے بھی بہترین مواقع موجود ہیں۔ مجھے کئی جامعات جانے اور ان کے کام کرنے کے انداز کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ہر دوسری یونیورسٹی میں جہاں بھی کوئی خالی یا اضافی جگہ موجود ہوں انتظامیہ وہاں فصلوں ہے ذریعے پیسہ کمانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اوکاڑہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر نے طلباء کو بہترین ماحول فراہم کرنے کے لیے کاشتکاری کے بجائے جامعہ میں کھیلوں کے بہترین میدان تیار کیے ہیں۔ یہ رجحان ذرا مختلف اور اس کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اس منفرد کام کا کریڈٹ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر کو جاتا ہے۔ یہ حقیقی معنوں میں قوم کی خدمت ہے۔ نوجوانوں کو تعلیم کی بہتر سہولیات کے ساتھ ساتھ اگر کھیل اور صحت مند سرگرمیوں کے مواقع فراہم کریں تو وہ تعلیم معیار کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ صحت مند معاشرے کی تشکیل میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں نے ہر سطح پر کھیلوں کو نظر انداز کیا ہے۔ کھیلوں کو نظر انداز کرنے سے ہم ناصرف باصلاحیت نوجوانوں کا راستہ روکتے ہیں بلکہ معاشرے میں صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لینے والے اہم افراد کو مثبت کردار ادا کرنے سے بھی روک رہے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں تعلیمی ادارے کھیلوں میں بہتر صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں کو ناصرف آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں بلکہ سکالر شپ کے ذریعے نوجوانوں میں تحریک پیدا کی جاتی ہے۔ ایک جگہ میں سن رہا تھا کہ ہاکی اولمپیئن گولڈ میڈلسٹ توقیر ڈار بتا رہے تھے کہ دو ہزار سولہ کے ریو اولمپکس میں میڈلز حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کی بڑی تعداد کا تعلق مختلف جامعات سے تھا۔ اب یہاں سے اندازہ کریں کہ دنیا کس طرح اپنے نوجوانوں پر سرمایہ خرچ کرتی ہے۔ ایک طرف اعلیٰ تعلیم کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے تو دوسری طرف بین الاقوامی مقابلوں میں بہترین کارکردگی سے دنیا پر اپنی دھاک بٹھائی جاتی ہے تیسرا ایک پوری نسل میں جامعات تک آنے اور بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لیے متحرک کیا جاتا ہے۔ اس فلسفے کو سمجھنے اور عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اوکاڑہ یونیورسٹی میں کاشتکاری کے بجائے کھیلوں کے میدان تیار دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ کاش ہم اپنی جامعات میں کھلاڑیوں کے لیے بہتر مواقع پیدا کریں تو ہم صحت مند معاشرے کی تشکیل بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کھیلیں صرف اچھل کود کا نام نہیں ہے یہ آج دنیا میں ایک بہت بڑی انڈسٹری کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اربوں، کھربوں کا کاروبار کھیلوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انسانوں کے معیار کو بلند کرنے کے لیے بھی کھیلیں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر اس حوالے سے بہتر فیصلے کر رہے ہیں۔ وہ ایک تجربہ کار، سمجھدار، زمینی حقائق کو دیکھ کر فیصلہ کرنے والے منتظم ہیں۔ وہ تعلیم و تحقیق کا شوق حقیقی معنوں میں نوجوانوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر کہتے ہیں کہ ہم اس دھرتی کے مقروض ہیں، ہم آسائشیں اس ملک کی وجہ سے ملی ہیں، ہم دھرتی کا قرض تو کبھی نہیں اتار سکتے لیکن اس کا کچھ حصہ واپس لوٹانے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں اور دھرتی کا قرض واپس کرنے کے لیے تعلیم عام کرنے، نوجوانوں کو ہنر مند، مہذب، بہتر شہری اور تخلیقی کاموں پر لگانے سے بہتر کوئی کام نہیں ہے۔ ہم اوکاڑہ یونیورسٹی میں وہ سب کچھ جو ہمیں اس ملک نے دیا ہے واپس لوٹا رہے ہیں۔ اوکاڑہ یونیورسٹی کا مستقبل بہت روشن ہے دوہزار سولہ سے اب تک جتنا کام یہاں ہوا ہے یا جتنے طالب علم یہاں موجود ہیں یہ سب علم سے محبت کرنے والوں کی محبت اور محنت کا نتیجہ ہے۔ ہم وسائل نوجوانوں پر نچھاور کریں پھر دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ ملک کے نوجوانوں میں احساس ذمہ داری وسائل اور مواقع فراہم کرنے سے بڑھتا ہے۔ راستے روکنے اور مشکلات کھڑی کرنے سے ترقی نہیں ہو سکتی۔ ہمارا مقصد ملک میں انسانوں کے معیار کو بلند کرنا ہے، ہم نے جو ہدف مقرر کیا ہے اس تک نہ بھی پہنچ پائے پھر بھی ہم فرق پیدا کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ چودھری صاحب میں زور دے رہا ہوں انسانوں کا معیار بلند کرنے پر اگر پاکستان میں کہیں اور اس نظریے کے تحت کام ہو رہا ہے تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ میں وہاں بھی اپنا حصہ ضرور ڈالوں گا۔
اوکاڑہ یونیورسٹی سینتالیس ڈیپارٹمنٹس اور ستانوے ڈگری پروگرام ہیں، ہزاروں طلباء یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لگ بھگ دو سو سے زائد بہترین صلاحیتوں کے حامل اساتذہ بچوں کا مستقبل سنوارنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ دس کروڑ روپے سالانہ پنجاب حکومت جاری کرتی ہے۔ ابھی اساتذہ کے لیے رہائش کا بندوبست نہیں ہے، طلباء کے لیے ہاسٹلز نہیں ہیں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے لگ بھگ ڈیڑھ سو کروڑ کے بجٹ کی منظوری دی ہے۔ دلچسپ اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ یہاں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ذاکر زکریا اور ان کی ٹیم بہت محنت کر رہی ہے۔ دعا ہے کہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان مستقبل میں ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں، اپنی یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا نام بھی روشن کریں۔ تعلیم کو عام کریں، تحقیق پر زور دیں، تفکر، تدبر اور تحقیق ہی میں ہمارا بہتر مستقبل اور کامیابی ہے۔ اس پیغام کو عام کریں۔