سلیکشن کا معیار سمجھ سے باہر، ٹیم میں واپسی کیلئے پر امید ہوں: جنید خان
لاہور(حافظ محمد عمران/سپورٹس رپورٹر) ٹیسٹ فاسٹ باؤلر جیند خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں سلیکشن کا معیار سمجھ سے باہر ہے، ٹیمیں میڈیا کے دباؤ پر بنتی ہیں، جو ٹی وی پر زیادہ آتا ہے، ٹوئٹر زیادہ استعمال کرتا ہے، تقریبات میں جاتا ہے، سیلفیاں لیتا ہے تو ایسے لوگ میڈیا میں زیادہ نظر آتے ہیں اس کے بعد وہی ٹیم میں ہوتے ہیں جن کیلئے بولنے والے ہوتے ہیں۔ ہمارا کلچر ایسا ہے کہ کوئی کسی بھی وقت ٹیم میں شامل ہو سکتا ہے اور کسی کو اچانک بغیر وجہ بتائے ڈراپ کر دیا جاتا ہے۔ مکی آرتھر کو جب وہاب ریاض کی ضرورت تھی ٹیم میں واپس لائے، غیر ملکی کوچ نے ان کے بارے جس طرح میڈیا میں اپنا خیالات کا اظہار کیا وہ غلط تھا۔ ایک فرسٹ کلاس میچ والے قومی ٹیم کا حصہ ہوتے ہیں، جن لوگوں کیلئے بولنے والے ہوں یا جنہیں حمایت ملتی ہے وہ ٹیم کا حصہ ہوتے ہیں۔ جہاں باؤلرز کو ماڑ پڑتی تھی وہاں متبادل کے طور پر مجھے کھلایا جاتا تھا۔ میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ کئی مرتبہ سائیڈ میچ میں سب سے زیادہ وکٹیں میری ہوتی تھیں لیکن قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ کھلاڑی کو اعتماد دیا جائے تو اس کی کارکردگی کس معیار بہتر ہوتا ہے جب اسے یہ علم نہ ہو کہ آئندہ میچ بھی کھیلنا ہے یا نہیں تو کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ فاسٹ باؤلر صرف رفتار سے کامیاب نہیں ہوتے، اگر ایسا ہوتا تو جیمز اینڈرسن، براڈ اور ٹم ساوتھی سمیت دیگر باولرز کبھی کامیاب نہ ہوتے، جب تک مجھے مسلسل مواقع ملتے رہے اس وقت تک کارکردگی بھی اچھی تھی آج بھی مسلسل محنت کر رہا ہوں، فٹنس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا، ٹریننگ دلجمعی سے کرتا ہوں، قومی ٹیم میں واپسی کیلئے پرامید ہوں، یہ کہنا درست نہیں کہ میرا رویہ ٹھیک نہیں تھا، کوئی بتائے کبھی میں نے کسی کوچ سے بدتمیزی کی ہو، کبھی کسی کھلاڑی سے جھگڑا ہوا ہو، ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔ بس میں لوگوں کے تقریبات میں نہیں جاتا، لوگوں کے ساتھ کھانے پر نہیں جاتا۔ میں یونس خان کیساتھ کافی کرکٹ کھیلا ہوں اور ان سے متاثر بھی ہوں وہ وقت کی پابندی کرتے تھے۔ زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے بس کرکٹ کھیلتے تھے۔ میں بھی میچ کھیلنے کے بعد یا پریکٹس کے بعد زیادہ وقت اپنے کمرے میں گذارتا تھا۔ قومی ٹیم کیلئے کھیلا ہوں، ایک گاؤں کا نوجوان اور کیا خواہش کر سکتا ہے کہ اس بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہو۔ اب بھی واپسی کیلئے پرامید ہوں، پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا قدرتی حسن دنیا کو دکھا رہا ہوں، سیاحت کے فروغ کیلئے غیر ملکی دوستوں کو پاکستان بلا رہا ہوں، سیاحت میرا شوق ہے اور یہ ملک کی خدمت بھی ہے۔ اپنا یوٹیوب چینل بھی چلا رہا ہوں۔ سیاحت کیلئے بھی جاتا ہوں تو پریکٹس نہیں چھوڑتا۔ دو ہزار پندرہ تک مسلسل کھیلتا رہا ہوں اس دوران اور بعد میں کارکردگی کا موازنہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ جب آخری مرتبہ بھارت کیخلاف کھیلا اور بہترین باؤلنگ سے ٹیم کی کامیابی میں اطنا کردار ادا کیا ویرات کوہلی اس وقت بھی بہترین کرکٹر تھا فرق صرف اعتماد کا تھا مجھے یقین تھا کہ اگر کسی میچ میں رنز ہو بھی جائیں گے تو ڈراپ نہیں کیا جائیگا۔ اس وقت شاہین آفریدی کو مسلسل میچز مل رہے ایسے اعتماد سے کھلاڑی بہتر کھیل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس وقت قومی ٹیم کے باؤلرز میں سے صرف محمد عباس کے اعدادوشمار مجھ سے بہتر ہیں۔ اس وقت ٹیم میں کوئی سینئر کھلاڑی موجود نہیں اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ٹیم مینجمنٹ کے ساتھ اختلافات ہو سکتے ہیں۔