وزیراعظم کا آرمی چیف کے ہمراہ پشاور کورہیڈکوارٹرز کا دورہ
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ پشاور کورہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا۔ وزیراعظم آفس سے اس حوالے سے جاری اعلامیہ کے مطابق گورنر اور وزیراعلیٰ خیبر پی کے بھی انکے ہمراہ تھے۔ وزیراعظم نے کورہیڈ کوارٹرز آمد پر یادگار شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ اس موقع پر وزیراعظم کو سکیورٹی کی موجودہ صورتحال‘ جاری استحکام کی کارروائیوں‘ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے اور نئے ضم شدہ اضلاع میں جاری سماجی و اقتصادی ترقی کے منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم کو پاک افغان بین الاقوامی سرحد پر سکیورٹی کی بدلتی ہوئی صورتحال سے نمٹنے کیلئے کی گئی منصوبہ بندی سے بھی آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم نے پاکستان کے جامع بارڈر مینجمنٹ رجیم کی افادیت‘ مؤثر سرحدی کنٹرول اور داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے کئے جانیوالے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا اور کرونا‘ ٹڈی دل‘ انسداد پولیو مہمات اور شجر کاری کے دوران سول انتظامیہ کی معاونت پر بھی فارمیشن کے کردار کو سراہا۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں جبکہ کابل انتظامیہ اور طالبان کے مابین اقتدار کی کشمکش میں ہونیوالی معرکہ آرائیوں کے باعث افغان سرزمین بدامنی کا گڑھ بن چکی ہے‘ ہمیں پاک افغان سرحد سے وابستہ ماضی کی تاریخ کو پیش نظر رکھ کر ملک کی سلامتی و خودمختاری کے تحفظ کیلئے پہلے سے بھی زیادہ تردد کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف کے ہمراہ پشاور کورہیڈ کوارٹرز کا دورہ کرکے علاقے کی صورتحال سے بروقت آگاہی حاصل کی جس سے پاک افغان سرحد پر ممکنہ شورش کو روکنے کیلئے بہتر منصوبہ بندی کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ آج افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت عملاً صرف کابل تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے جبکہ جنگجو طالبان کی کابل کے اقتدار کی جانب بھی پیش قدمی جاری ہے اور کوئی بعید نہیں کہ امریکی فوجوں کے افغانستان سے مکمل انخلاء سے پہلے ہی افغانستان میں طالبان کے اقتدار کا سورج طلوع ہو جائے جس کے بارے میں واشنگٹن انتظامیہ کو بھی تشویش لاحق ہے اور اسکی جانب سے باور کرایا جا چکا ہے کہ افغانستان میں طاقت کے زور پر حاصل کیا گیا اقتدار امریکہ کو قبول نہیں ہوگا تاہم ہمیں زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ہی اپنے دفاع اور علاقائی امن و استحکام کیلئے پالیسیاں طے کرنی ہیں۔
ہمیں فوری طور پر جومسائل لاحق ہو سکتے ہیں ان میں افغان مہاجرین کی ممکنہ یلغار کے علاوہ دہشت گردی کے سنگین خطرات بھی شامل ہیں اس لئے ہمیں ٹھوس حکمت عملی کے تحت پاک افغان سرحد سے افغان باشندوں کی آزادانہ آمدورفت روکنا ہو گی تاکہ مہاجرین کے بھیس میں بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں کو اپنی مذموم کارروائیوں کیلئے پاکستان میں داخل ہونے کا موقع نہ مل سکے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ بھارت اب تک افغان سرزمین کے ذریعے ہی پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی گھنائونی سازشیں بروئے کار لاتا رہا ہے جس کیلئے اسے کابل انتظامیہ کی مکمل معاونت حاصل رہی ہے۔ آج افغان صدر اشرف غنی کے پائوں کے نیچے سے تیزی کے ساتھ اقتدار کا قالین سرک رہا ہے تو وہ جہاں اس صورتحال پر امریکہ کو مطعون کر رہے ہیں وہیں وہ بھارتی ایماء پر پاکستان کیخلاف بھی بلیم گیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اس لئے کوئی بعید نہیں کہ وہ جاتے جاتے بھارت کو اپنے دہشت گرد اور جاسوس پاکستان میں داخل کرنے کی کھلی چھوٹ دے جائیں۔ پاکستان کی جانب سے بے شک ایسی بھارتی سازشوں کے توڑ کیلئے ہی پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور پاکستان کی سرحد سے متصل خیبر اور چمن بارڈر پر حفاظتی گیٹ بھی تعمیر کئے گئے جس پر پاکستان کو کابل انتظامیہ اور اسکے ایماء پر افغان فوج کی سخت مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا تاہم ملک کے دفاع کے نکتۂ نظر سے یہ درست فیصلہ تھا جس کے باعث پاک افغان سرحد پر غیرقانونی آمدورفت میں خاطرخواہ حد تک کمی آئی ہے۔ آج تو طالبان کی حصول اقتدار کیلئے ہونیوالی پیش قدمی اور اسکے دوران قتل و غارت گری کے رونما ہوتے واقعات کے تناظر میں ہمارے لئے وطن عزیز اور اسکے شہریوں کے تحفظ و دفاع کیلئے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھانا اور بھی ضروری ہو چکا ہے۔
اس وقت افغان دھرتی کی صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے صوبے نمروز پر بھی طالبان نے قبضہ کرلیا ہے اور ہرات‘ قندھار سمیت کئی صوبائی دارالحکومتوں کی جانب طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ افغان طالبان نے پاک افغان سرحد پر ’’بابِ دوستی‘‘ کو ہر قسم کی آمدورفت کیلئے بند کر دیا ہے اور سکیورٹی حکام کے مطابق دونوں اطراف پھنسے پاکستانی اور افغان شہریوں کیلئے پیدل آمدورفت‘ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ‘ امپورٹ‘ ایکسپورٹ بھی معطل ہو گئی ہے۔ افغان حکومت کے میڈیا انفرمیشن سنٹر کے سربراہ دواخان کو طالبان نے قتل کر دیا ہے اور افغان شہر شبرغان میں افغان فورسز اور طالبان کے مابین لڑائی جاری ہے جہاں طالبان نے ماسٹر عبدالرشید دوستم کے گھر کو آگ لگا دی اور انکے محل پر بھی قبضہ کرلیا جو بعدازاں افغان سکیورٹی فورسز نے واگزار کرایا۔ اسی طرح ہلمند کے دارالحکومت لشکرگاہ میں طالبان کے ایک اجتماع پر لڑاکا طیاروں کے حملے کے نتیجہ میں ایک اہم طالبان کمانڈر سمیت 40 عسکریت پسند مارے گئے ہیں جبکہ افغانستان کی موجودہ گھمبیر صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی منعقد ہوا ہے جس میں افغان مشن کے سربراہ ڈہرالبان نے اس امر کا تقاضا کیا کہ سلامتی کونسل کو افغان شہروں پر حملے فی الفور بند کرانے کے اقدامات اٹھانا ہونگے۔ اس حوالے سے افغان مشن کی جانب سے پاکستان سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ طالبان کے انفراسٹرکچر اور پائپ لائن کو ختم کرنے میں مدد فراہم کرے۔ دوسری جانب یورپی رہنمائوں نے بھی افغانستان میں فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور چین کے مندوبین نے افغانستان میں حملے بند کرانے اور افغان مسئلہ کا انٹرا افغان ڈائیلاگ کے ذریعے حل تلاش کرنے کا تقاضا کیا ہے اور خطے کے ممالک سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن کیلئے کردار ادا کریں۔
بے شک کابل انتظامیہ کو پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رہا ہے تاہم ملکی سلامتی کے تقاضوں اور سی پیک کے ثمرات حاصل کرنے کی خاطر افغانستان میں امن کی بحالی ہماری ضرورت ہے اور اسی تناظر میں پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے مابین امن عمل کی راہ ہموار کی جبکہ امن کی مستقل بحالی کیلئے پاکستان آج بھی اپنا مثبت اور مؤثر کردار ادا کرنے کو تیار ہے تاہم ملک کی سلامتی و خودمختاری کا دفاع ہماری اولین ترجیح ہے جس کیلئے ملک کی سول حکومتی اور عسکری قیادتوں کے مابین پہلے سے قائم مثالی ہم آہنگی کی فضا زیادہ سودمند اور مؤثر ثابت ہوگی۔ کابل انتظامیہ کو افغانستان میں جاری خلفشار پر قابو پانے کیلئے بہرصورت خود اقدامات اٹھانا ہونگے۔