• news

الیکشن میں 2سال،سیاسی جماعتیں متحرک ہونے لگیں،آغاز بلوچستان سے ہو گیا

لاہور (فاخر ملک) پاکستان میں شیڈول کے مطابق 2023ء کے آئندہ  الیکشن میں دو سال کا عرصہ باقی ہے لیکن سیاسی جماعتوں میں ہلچل شروع ہو گئی ہے اور اس دفعہ سیاسی کھیل کا آغاز صوبہ بلوچستان سے ہوا ہے۔ بلوچستان میں ایک سابق گورنر، ایک سابق وزیراعلیٰ، پانچ سابق صوبائی وزرا و ارکان اسمبلی سمیت کئی اہم سیاسی شخصیات نے پیپلز پارٹی میں  شمولیت اختیار کر لی ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ملک میں  آئندہ ہونے والے الیکشن میں پیپلز پارٹی حکومت بنائے گی۔ جبکہ  پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا خیال ہے کہ  پیپلز پارٹی کے لیے 2023ء کے انتخابات سے قبل حالات سازگار ہو رہے ہیں اور بلوچستان نکتہ آغاز ہے جبکہ توقع ہے کہ    تحریک انصاف اپنی کارکردگی اورکرپشن کے خلاف کوششون کو اپنا  انتخابی بیانیہ  بنائے گی اور پاکستان مسلم لیگ  (ن) کا انتخابی بیانیہ ملک میں مہنگائی اور 2018ء سے اور آئندہ الیکشن تک  موجودہ حکومت کی (ان کے مطابق) غلط پالیسیوں کی زیادہ سے زیادہ تشہیر پر مبنی ہوگا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مرکز میں آئندہ الیکشن میں 169 نشستوں کی حامل ایک یا ایک سے زیادہ  جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد نئی حکومت بنائے گا۔ اس وقت قومی اسمبلی کا ایوان 342 ارکان پر مشتمل ہے جبکہ آئندہ اسمبلی  کا ایوان 336 ارکان پر مشتمل ہوگا۔ اس ضمن میں  الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ  مردم شماری 2017ء کے عبوری اور حتمی اعداد و شمار میں اگر  کافی فرق ہوا تو قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم میں ردوبدل ہوسکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ الیکٹ ایبلز کی شمولیت سے پیپلز پارٹی بلوچستان میں مضبوط تو ہوگی مگر آئندہ صوبے میں حکومت کس کی بنے گی اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ مرکز میں کون سی جماعت برسرِاقتدار آتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے یہ تمام افراد سیاست کے میدان میں نئے نہیں بلکہ تجربہ کار اور الیکٹ ایبلز سیاستدان ہیں۔ ان شخصیات کی پیپلز پارٹی سے کوئی نظریاتی قربت نہیں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ  بلوچستان میں بیشتر لوگ اپنی انفرادی اور قبائلی حیثیت کی بنیاد پر کامیاب ہوتے ہیں تاہم دوسرے صوبوں میں بھی  الیکٹ ایبلز سیاسی ہوا کا رْخ دیکھ کر سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور حالات تبدیل ہونے پر پارٹی بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ماضی میں یہی صورتحال کم  و بیش پنجاب کے صوبہ بالخصوص جنوبی پنجاب میں پیش آتی رہی ہے اور ملکی سطح پر حکومت سازی میں ان کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ الیکشن میں سندھ کے صوبہ میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں حال ہی میں جس نئی رسہ کشی کا آغاز ہوا ہے اس کا مقصد پیپلز پارٹی کو سندھ کے اندر محدود کرنا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی نے کراچی میں انتظام کو نئی شکل دینے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ ان کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے جبکہ وہ مرکز میں حکومت سازی کے لئے جنوبی پنجاب پر تکیہ کر رہی ہے اور حکمت عملی یہ ہے کہ تحریک انصاف سے ممکنہ طور پر  علیحدگی اختیار کرنے والوں کو ساتھ ملایا جائے۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) نے  آئندہ الیکشن کے معاشی اور سیاسی بیانیہ کو الگ الگ طورپر لوگوں کے سامنے لانے  کی منصوبہ بندی کی ہے۔ اگرچہ بظاہر الیکشن قبل از وقت ہونے کے امکانات  معدوم نظر آتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں نے الیکشن کے بارے میں سوچنا  شروع کر دیا ہے۔ اندازہ کاروں کا کہنا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی جوڑ توڑ جلد ہی سامنے آنا شروع ہوگا لیکن جوڑ توڑ کا اصل میدان پنجاب ہوگا۔

ای پیپر-دی نیشن