چور کا پُتر
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے گذشتہ ایک برس میں جب سے میںنے کالم نگاری شروع کی ہے میں نے ڈھکے چھپے لفظوں میں یا کھلے عام حکومت ، اپوزیشن، چوروں ، ڈاکوئوں،لیٹروں اور اپنے مخالفین سمیت کبھی کسی کے خلاف کچھ نہیں لکھا ۔حالانکہ اس دوران مجھے بے شمار ایسے مواقع میسر آئے جن کی بنیاد پر اچھے اچھوں کی زبردست ’’لتر یشن‘‘ کی جاسکتی تھی مگر میں ہمیشہ انہیں نظر انداز کرتا رہا۔اب اتنی زیادہ شرافت اور رواداری دکھانے کے بعد بھی اگرکوئی ناہنجار چورکا پتر دن دیہاڑے میرے جیسے بے ضرربندے کی گاڑی کا ایک سائیڈ مرمر لے اُڑے تو یہ سوچ کر کہ ’’میںنے کسی کا کیا بگاڑا تھا‘‘ اپنے غیر متوقع طور پرہونیوالے نقصان پر حیرت اور افسوس کے ساتھ نئے پاکستان میں لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے حوالے سے حکومتی کارکردگی اورنیت پرایک سوالیہ نشان توضرور بنتا ہے۔ بہت عرصہ پہلے میںنے کسی سیانے سے یہ بات سُنی تھی کہ’’ جب کسی کی چوری ہوتی ہے تو اسباب کے ساتھ اُس کا ایمان بھی چلا جاتا ہے‘‘۔ اُس وقت تو یہ بات میرے پلے نہیں پڑی تھی مگر سیانے کی بات اور آملے کے اچار کی طرح اپنے ساتھ ہونے والی واردات کے بعد اب اس کا سواد یوں آیا ہے کہ دوست اور دشمن کی تفریق کے بغیر مجھے ہر کسی پر چور ہونے کا شک ہونے لگا ہے۔کسی لگی لپٹی کے بغیر کہوں تو میراسب سے پہلا شک حکومت کی طرف جاتا ہے کہ شاید مجھے سبق سکھانے کیلئے اس واردات کے پیچھے حکومت کا خفیہ ہاتھ ہو کیونکہ ہمارے ہاں اکثر حکومتیں اپنے مخالف بڑے بڑے کالم نگاروں کو سبق سکھانے کیلئے اسی قسم کے فسطائی حربے استعمال کرتی ہیں۔مگر پھر یہ خیال آتا ہے کہ بھلا حکومت مجھے ایسا سبق کیوں سکھانا چاہے گی جبکہ میں نے تو اپنے کالموں میں آج تک کبھی حکومت مخالف کوئی بات لکھی ہی نہیں۔ اسکے بعد ڈرتے ڈرتے ہی سہی لیکن نامعلوم افراد کی طرف بھی میرادھیان جاتا ہے کہ شاید کبھی بے دھیانی میں لکھی گئی میری کوئی بات اُنہیں ناگوار گزری ہو جس پر انہوں نے مجھے ’’یرکانے‘‘ کیلئے میری گاڑی کا سائیڈ مر مر چوری کرکے شرارتاََ یا اشارتاََ مجھے ایک کان سے ہمیشہ کیلئے محروم کر کے ’’بُچہ ‘‘ کرنے کی دھمکی دی ہو۔مگر اس موقع پر مجھے اپنے کالموں میں نامعلوم افراد کے حضور نوکری کے لئے لکھی میری بارہا درخواستیں یاد آ کے میرے اس وہم کو جھٹلادیتی ہیں۔البتہ اپوزیشن کے حوالے سے مجھے پورا یقین ہے کہ حکومت کے خلاف اُنکے بیانیہ کے حق میں کھل کر نہ لکھنے کی وجہ سے اسے مجھ سے ضرور گلہ ہوگا لیکن پھر مجھے یہ خیال آتا ہے کہ مختلف ’’پسوڑیوں‘‘ میںگرفتار بیچاری اپوزیشن کوتو خود اپنا سبق بھولا ہوا ہے وہ مجھے کیا سبق سکھائے گی۔باقی رہے میرے ذاتی مخالفین تواُن کے حوالے سے مجھے اوراپنے حوالے سے خود اُن کو بھی بخوبی اندازہ ہے کہ میرے لئے اپنے دل میں بے پناہ کدورت اور حسد رکھنے کے باوجود ان میںاتنا دم خم نہیں کہ ’’رانے‘‘ کی گاڑی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی اسے بری نظر سے دیکھ سکیں۔ جہاں تک دوستوں کی بات ہے توتمام تر شکوک وشبہات کے باوجود میں کہوں گا کہ کم از کم اس معاملے میں شاطر سمیت میرے تمام دوست بری الذمہ ہیں اس لئے کہ اگر اُن میں سے کوئی اس حرکت بد میں ملوث ہوتا تووہ گاڑی کا ایک نہیں دونوں سائیڈ مرمر لے جاتا۔ اس پریشان کن تمہید کے بعد یقینا آپ چاہیں گے کہ آپ کو اس واردات کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا جائے۔اس حوالے سے عرض ہے کہ بڑی عید سے ایک دن پہلے میں استاد محترم عطاء الحق قاسمی صاحب کو ملنے وارث روڈ پر واقع اُنکے دفتر ’’معاصر انٹرنیشنل‘‘ گیا جہاں کچھ دیر اُنکے ہمراہ بیٹھنے کے بعد وہ اور میں ایک ساتھ اُنکے دفتر سے نکلے۔ اسکے بعد انہیں رخصت کر کے جب میں اپنی گاڑی کی طرف بڑھا توکوئی چور کا پُتر اُس وقت تک میری گاڑی کا ایک سائیڈ مرمر اُتار کر لے جاچکا تھا اور میری’’کن ٹُٹی‘‘ گاڑی وہاں کھڑی ملکہ ترنم نورجہاں کے گانے ’’اے سہیلی تیرا بانکپن لُٹ گیا‘‘ کی عملی تصویر بنی میرا منہ چڑا رہی تھی جس کے بعد میرے منہ سے چور کیلئے ناقابلِ بیان قسم کے جو جو ’’تبرلے‘‘ نکل سکتے تھے میں بے اختیار بغیر کسی وقفے کے اُس وقت تک نکالتا رہاجب تک میرے پاس’’ صرف بالغوں کیلئے ‘‘جیسی قسم کا ذخیرئہ الفاظ ختم نہیں ہوگیا۔لیکن ہر وہ شخص جسے اپنی گاڑی سے میری طرح بے پناہ پیار ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ ملال اورنقصان کی گھڑی میں ایسے ’’حیلوں ‘‘سے بھلا بے چین دل کو کب قرار آتا ہے ۔ پہلی نظر میں ایک کان کے بغیر اپنی گاڑی کو دیکھ کر میرے دل پر نجانے ’’کاش‘‘ کی کتنی چھریاں چل گئیںجنھیں بیان کرنے لگوں تو شاید ’’کاش‘‘ کی ایک پوری کتاب بن جائے۔ ’’کاش میں نے اپنی گاڑی کو نظر بد سے بچانے کیلئے اسکے بونٹ کے سامنے پرانا جوتا لٹکایا ہوتا،کاش چور کی نظر انتخاب میری گاڑی کی بجائے کسی اور کی گاڑی پر پڑی ہوتی،کاش پارک کرنے سے پہلے میں اپنی گاڑی کے دونوں سائیڈ مرمر اُتار کے اُنہیں ٹریکٹر ٹرالی جیسے کسی ایسے ٹول بکس میں بند کرکے باہر سے ایک مضبوط سا تالا لگا دیتا جس پر چور کو دھوکہ دینے کیلئے موٹے موٹے لفظوں میں لکھا ہوتاہے’’چور کے پتر ٹول بکس خالی ہے‘‘۔مگر اب پچھتانے کاکیا فائدہ ،میری کوتاہی سے میرا جونقصان ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔چور جاتے جاتے میرا قیمتی اثاثہ لے گیا لیکن مجھے ایک سبق ضرور دے گیا کہ اثاثے چاہے ذاتی ہوں یا قومی جب تک اُنکی حفاظت کا کوئی معقول بندو بست نہ کیا جائے چور،ڈاکو اور لیٹرے اُنہیں دن دیہاڑے لوٹتے رہیں گے اور ہم اپنے نقصان پر یونہی بے بسی سے ہاتھ ملتے رہیں گے۔