انتخابات اور دھاندلی
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ 1970ء کے علاوہ تمام انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ کیا عمران خان صاحب 2018ء کے انتخابات کو بھی دھاندلی میں شمار کرتے ہیں؟ میں 1970ء کے انتخابات کی جھلک بیان کرتا ہوں۔ 8 دسمبر 1970ء کا روزنامہ آزاد میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ 1970ء کے انتخابات کے اگلے روز کا اخبار ہے۔ اس کے ایڈیٹر عباس اطہر تھے۔ جن کی بنائی ہوئی سرخیاں ’’مودودی ٹھاہ‘‘ ’’اِدھر تم اُدھر ہم‘‘ مشہور ہوئیں۔ ’’آزاد‘‘ کی لیڈ تھی ’’بھٹو آ گیا‘‘ رات گئے موصول ہونے والے نتائج کے مطابق عوامی لیگ 111 اور پیپلز پارٹی 92 نشستوں پر جیت رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے آٹھوں امیدوار کامیاب ہو گئے۔ ان دنوں ’’آزاد‘‘ اخبار کے چیف رپورٹر عبداللہ ملک تھے۔ ان کی بنائی خبر کی سرخی تھی ’’لاہور آزاد ہو گیا۔ پچاس سال پرانے بُت پاش پاش ہو گئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال، صلاح الدین، محمد حسین، ذکا اور میاں طفیل کو عبرتناک شکستیں۔ ان کی دوسری خبر کی سرخی تھی ’’مشرقی پاکستان عوامی لیگ کا ہے۔ سرحد میں ولی خان نیپ جیت گئی‘‘ اکثریتی پارٹی عوامی لیگ تھی۔ مگر اس جماعت کو اقتدار نہ سونپا گیا اور یوں ملک دو لخت ہو گیا۔
1994ء میں میری ملاقات جنرل بختیار رانا سے ہوئی تھی۔ جب جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو جنرل بختیار رانا نے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے فرائض بھی سرانجام دیئے تھے۔ ملک کے دو لخت ہونے کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔ ’’میں جنرل یحییٰ خان کی جگہ ہوتا تو اقتدار اکثریتی پارٹی یعنی شیخ مجیب الرحمن کو سونپتا۔ جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے جو فیصلہ کیا، وہ درست نہیں تھا۔ اس سے ملک دو لخت ہو گیا۔ اگر اقتدار شیخ مجیب الرحمن کے حوالے کر دیا جاتا تو ملک ایک رہتا۔ بنگلہ دیش نہ بنتا۔ اس سے پہلے بھی بنگالی برسر اقتدار رہے ہیں۔ وہ کبھی ملک تقسیم نہ کرتے‘‘ بنگلہ دیشی رائٹر جہاںآراء امام نے ایک کتاب لکھی ’’اکہتر کے وہ دن، مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک۔ تصویر کا دوسرا رخ‘‘ یہ ایک روزنامچہ ہے۔ اس کا اردو ترجمہ جمہوری پبلی کیشنز نے شائع کیا۔ روزنامچہ میں مصنفہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتی ہیں کہ مغربی پاکستان کے عوام کو اس قتل عام کا علم ہی نہیں۔ تاہم وہ جاننے سے قاصر ہیں کہ یہی تو مجیب، سہروردی اور بھاشانی کی سیاستوں کا فرق ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں مجیب الرحمن آسانی سے بھاشانی یا ولی خان وغیرہ سے مل کر دونوں حصوں میں انتخابی امیدوار کھڑے کر سکتا تھا مگر وہ ایسا چاہتا ہی نہیں تھا۔ اس کی تو سیاست ہی اور تھی۔ فرزند اقبال، ڈاکٹر جاوید اقبال نے ذوالفقار علی بھٹو کے مقابل الیکشن لڑا اور ہار گئے۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال سے میری متعدد ملاقاتیں رہی ہیں۔ ایک ملاقات میں انھوں نے کہا۔ ’’پھر میں نے وکالت کی طرف توجہ دی۔ میں 1968ء میں بار کا صدر منتخب ہوا۔ بھٹو صاحب اس زمانے میں گرفتار ہوئے۔ میاں محمود علی قصوری ان کا کیس لڑ رہے تھے اور میں نے قصوری صاحب کو اسسٹ کیا۔ میرے ساتھ ذکی الدین پال بھی اسسٹ کر رہے تھے۔ مولوی مشتاق ان دنوں جج تھے۔ انھوں نے بھٹو کو رہا کر دیا۔ ‘‘ یہی مولوی مشتاق جب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے عہدے تک پہنچے تو بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا دی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ، لاہور ہائی کورٹ کے جج اور پھر چیف جسٹس رہے۔ بطور ہائی کورٹ جج ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں کنفرم کیا۔ کنفرمیشن سے پہلے بھٹو صاحب نے آغا شورش کشمیری کے ذریعے پیغام بھجوایاکہ وہ بند کمرے میں فیصلے کرنے کے بجائے دوبارہ سیاست میں حصہ لیں اور ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے انکار کر دیا۔ اسکے بعد کنفرمیشن ہوگئی۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب اور میں آپس میں دوست بھی تھے اور میں 1970ء کے انتخابات میں ان کا مدمقابل امیدوار تھا۔ وہ جیت گئے اور میں ہار گیا لیکن انھوں نے اپنے طور پر ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ میں کسی نہ کسی طریقے سے ان کا ازالہ کروں۔ لیکن بدقسمتی سے نہ میں نے انھیں کوئی موقع دیا اور نہ کوئی ایسی صورت پیدا ہوئی۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھٹو کے قتل کیس کی سماعت سے عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچا ہے۔ مطلب یہ کہ عوامی اہمیت کے فوجداری جرائم کا کیس سول عدالت کے بجائے ملٹری عدالت کے سامنے جاتا۔ چوں کہ سپریم لائ، مارشل لاء تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلے کی نوعیت پر بحث کرنا فضول ہے۔ بعض فیصلے صحیح اور بعض غلط بھی ہو سکتے ہیں۔