ن لیگ ، پی پی میں بد اعتمادی : تحریک عدم اعتماد کی بیل منڈے چڑھنے کا امکان کم
لاہور (فاخر ملک) پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں رابطوں نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے اورسندھ میں تحریک انصاف کی یلغار روکنے کے لئے خلاف توقع پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کے لئے مسلم لیگ کو آپشن دی ہے کہ کامیابی کی صورت میں تمام کلید ی عہدے لے لیں لیکن تحریک عدم اعتماد میں ان کا ساتھ دیں۔ اگرچہ ابتدائی رابطہ میں مسلم لیگ (ن) کے مفاہمتی گروپ نے اس تجویز کو رد نہیں کیا لیکن دونوں پارٹیوں میں بد اعتمادی نکتہ عروج پر ہے جس کے نتیجہ میں تحریک عدم اعتماد کی بیل منڈے چڑھنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ واضح رہے کہ جب پہلی بار پیپلز پارٹی کی یہ تجویز آئی تھی تو مسلم لیگ (ن) نے اسے رد کر دیا تھا اور اس کی ایک اہم وجہ چار ماہ قبل پیپلز پارٹی کی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اجلاس میں ہونے والی آصف علی زرداری کی وہ تقریر تھی جس میں انہوں نے نواز شریف پر تنقید کی تھی۔ جبکہ سینٹ کے الیکشن میں بھی اس کے رویہ نے مسلم لیگ (ن) کو ہزیمت سے دوچار کیا۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق دس محرم کے بعد دونوں جماعتوں میں مذاکرات کا امکان ہے۔ اور ابتدائی پیش رفت میں آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے مشترکہ صدارتی امیدوار کا چنائو ہے جس میں مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلہ میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کے مطابق پارٹی کے سینئر رہنمائوں جن میں شاہد خاقان عباسی، پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال، مرکزی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگ زیب اور مسلم لیگ (ن) میں ہاکس گروپ کے نام سے یاد کئے جانے افراد پیپلز پارٹی کی سیاسی مفاہمت کی تجویز کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رابطہ کاروں نے مسلم لیگ کے مفاہمتی گروپ کو آگاہ کیا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں 31 ارکان جن میں الیکٹ ایبلز اور تحریک انصاف کے علاوہ حکومتی جماعت کے اتحادی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں پنجاب حکومت گرانے کے لئے تیار ہیں۔ جبکہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دینے والوں کی تعداد 25 ہے۔ مسلم لیگ کے ھاکس گروپ کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی ماضی کی طرح مسلم لیگ (ن) کو ٹریپ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ تحریک ناکامی سے دو چار ہو سکتی ہے۔ پی ڈی ایم اپنے اہداف حاصل کرنے کے قریب تھی تو پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی تحریک کو سبو تاژکرکے تحریک انصاف کی حکومت کو سہارا دیا جس کا اپوزیشن کو مجموعی طور پر نقصان اٹھانا پڑا۔ علاوہ ازیں میڈیا میں گردش کرنے والی باتیں بھی ان کے موقف کی تائید کرتی ہیں کہ آنے والے الیکشن کے لئے پیپلز پارٹی اور اقتدار کے اہم ترین سٹیک ہولڈرز کے مابین یہ مفاہمت موجود ہے کہ وہ سندھ سے بھاری اکثریت حاصل کریں جبکہ آئندہ الیکشن کے لئے الیکشن سے قبل کوئی مفاہمت یا فارمولہ طے کئے بغیر ایسی سودا بازی مسلم لیگ (ن) کے لئے فائدہ مند نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں ان حالات میں اقتدار کے لئے کوئی سیاسی پیش رفت میاں نواز شریف کے اس بیانیہ کی نفی کرے گی جس میں انہوں نے لولے لنگڑے اقتدار کو مسترد کردیا تھا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی 181، مسلم لیگ (ن) کی 168، پیپلز پارٹی کی 7 اور مسلم لیگ (ق) کی دس اور آزاد امیدواروں کی تعداد 4 ہے۔