• news

طالبان کابل سے 80کلو میٹر، 19دور صوبوں پر کنٹرول ، نائب صدر تا جکستان فرار

کابل/ شنہوا (این این آئی) طالبان نے افغانستان کے 19صوبوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ افغانستان کے تمام صوبوں کی کل تعداد 34 ہے اور تازہ صورتحال کے مطابق افغان طالبان کو اب ملک کے تمام صوبوں میں سے آدھے سے زیادہ پر کنٹرول حاصل ہو گیا ہے۔ ایک اور پیشرفت میں ہرات کے سابق گورنر اسماعیل خان  نے جمعہ کو اپنے آپ کو طالبان کے حوالے کر دیا۔ طالبان نے اسماعیل خان کی ویڈیو اور تصاویر میڈیا کو جاری کردیں۔ طالبان کے کنٹرول میں جانے والے شہروں میں قندھار، ہلمند، غور، زابل، قندوز، سرِ پل، تالقان، سمنگان، شبرگان، زرنج، غزنی، ہرات، جوزجان، بادغیس، تخار، نمروز اورارزگان شامل ہیں۔ ادھرافغان سکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ جمعہ کے روز تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان نے جنوبی افغانستان کے صوبے ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ صوبہ غور پر بھی کسی مزاحمت یا لڑائی کے بغیر قبضہ کر لیا۔ طالبان نے وہاں متعین افغان فوجیوں، سیاسی عمائدین اور کابل حکومت کو جوابدہ انتظامیہ کے عہدیداروں کو حفاظت کے ساتھ علاقے سے نکلنے کی اجازت دے دی۔ غزنی اور ہرات مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں جا چکے ہیں۔ قندھار پر قبضہ طالبان کی بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ شہر کبھی طالبان کا گڑھ تھا۔ عرب میڈیا کے مطابق طالبان نے افغان صدر اشرف غنی کے آبائی صوبے لوگر کے دارالحکومت پل علم کو کنٹرول میں لینے کے بعد گورنر اور شہری خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو گرفتار کر لیا۔ لوگر میں افغان فورسز نے 12 گھنٹے تک مقابلہ کیا لیکن اس کے بعد طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ صوبہ لوگر افغان دارالحکومت کا بل سے 80 کلو میٹر دور ہے اور یوں طالبان افغان دارالحکومت کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اردگان کے گورنر افغان فورسز کے ہتھیار ڈالنے کے بعد کابل جانے کیلئے ائر پورٹ روانہ ہو گئے۔ دوسری جانب امریکی میڈیا کے مطابق زابل کی صوبائی کونسل کے سربراہ نے تصدیق کر دی ہے کہ دارالحکومت قلات بھی طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے۔ طالبان نے ہرات ائیرپورٹ سے بھارتی لڑاکا طیارہ بھی قبضے میں لے لیا۔ اس سے پہلے قندوز ائیر پورٹ سے بھارتی ہیلی کاپٹر طالبان کے ہاتھ آیا تھا۔ طالبان نے صدر اشرف غنی کے آبائی صوبے لوگر پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ قندھار اور لشکر گاہ کی فتح کے بعد اب افغانستان کی حکومت کے ہاتھ آنے میں صرف ملک کا دارالحکومت اور دیگر کچھ علاقے باقی بچے ہیں۔ دوحہ میں موجود طالبان ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ خارجی قوتوں کی جانب سے مسلط کی گئی حکومت کو تسلیم کرنا ان کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ادھر برطانوی وزیر دفاع بین والس نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کو بڑی غلطی قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ افواج کی واپسی سے طالبان مضبوط ہو گئے۔ افغانستان خانہ جنگی کا شکار ناکام ریاست بن چکی ہے۔ وہاں سے القاعدہ کے دوبارہ ابھرنے کا خدشہ ہے جو مغرب کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے طالبان سے سفارتخانے پر حملہ نہ کرنے کی گارنٹی مانگ لی ہے۔ امریکا نے افغانستان سے سفارتی عملہ نکالنے کی ہنگامی تیاریاں شروع کر دیں۔ پینٹا گون کے مطابق 3ہزار امریکی فوجی 24سے 48گھنٹے میں کابل پہنچ جائیں گے۔ تاہم یہ فوجی طالبان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں کیے جائیں گے۔ ترجمان امریکی دفترخارجہ نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ کابل میں سفارت خانہ کھلا رہے گا اورکام جاری رہے گا۔ برطانیہ نے بھی افغانستان سے اپنے شہریوں کو نکالنے کے لیے 600 فوجیوں کو بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ چار ہزار برطانوی شہری اب بھی افغانستان میں  مقیم ہیں۔ طالبان کی افغانستان میں پیش قدمی نے عالمی سطح پر ہلچل مچا دی۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے افغانستان کی صورتحال پر غور کرنے کیلئے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ افغان حکومت نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی درخواست کی ہے۔ بین الاقوامی مذاکرات کیلئے سلامتی کونسل کا اجلاس مدد گار ثابت ہوگا۔ ڈنمارک   نے کابل میں اپنا سفارتخانہ بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ وزیر خارجہ ڈنمارک نے کہا ہے کہ کابل سے سفارتی عملے کو واپس بلا رہے ہیں۔ سکیورٹی صورتحال کے باعث سفارتخانہ بند کر رہے ہیں۔ یورپی  یونین  نے کہا ہے کہ طالبان دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ وزیر خارجہ یور پی یونین نے کہا کہ افغان حکومت  طالبان سے بات چیت کرے۔ ایران نے کہا ہے کہ افغانستان میں بڑھتے تشدد پر تشویش ہے ترجمان ایرانی وزارت خارجہ نے کا ہے کہ ہرات میں ایرانی سفارتی مشن عملے کے تحفظ کی ضمانت دی جائے ۔نیٹو نے افغانستان میں سفارتی مشن جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیٹو سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے ہمارا مقصد افغان حکومت اور سکیورٹی فورسز کی مدد کرنا ہے۔ کابل میں سفارتی عملے کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ کابل میں نیٹو کا سفارتی مشن کام جاری رکھے گا۔

ای پیپر-دی نیشن