پیر ‘ 7 ؍ محرم الحرام 1443ھ‘ 16؍ اگست 2021ء
جشن آزادی پر ملک بھر میں جشن باجے بجانے اور ریس لگانے والوں کی دھماچوکڑی
یوں تو ہر یوم آزادی پاکستان بھر میں دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہے ہی وطن سے محبت کے اظہار کا۔ اس روز جتنی بھی خوشی منائی جائے کم ہے۔ ہر سال سرکاری اور عوامی سطح پر 13 اگست کی رات سے ہی جشن آزادی کا آغاز ہوتا ہے۔ گھڑیاں جب 12 بجے کا اعلان کرتی ہیں تو گویا زمین و آسمان رنگ و نور میں نہا جاتے ہیں۔ لاکھوں شہری سڑکوں اور بازاروں میں جشن مناتے نظر آتے ہیں۔ مرد و زن بچے بوڑھے سب سبزہلالی پرچم لہراتے ہوئے قومی نغمے گاتے بجاتے نظر آتے ہیں۔ بے شک یہی زندہ قوموں کا وطیرہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ جو منچلے سائلنسر نکال کر موٹر سائیکلوں کو ہیلی کاپٹر بنا دیتے ہیں اور تیز رفتاری سے شور و غل کا طوفان برپا کرتے ہیں۔ انہیں کون سمجھائے۔ یہ اپنے ساتھ باقی لوگوں کے لیے بھی اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ اوپر سے رنگ برنگے پوں پاں پھوں پھاں والے باجے بھی اب جابجا شور مچاتے نظر آتے ہیں جو تفریح کم تکلیف زیادہ دیتے ہیں۔اس بارے میں انتظامیہ اور خود عوام کو بھی سوچنا چاہیے ۔ اس بار سوشل میڈیا پر نجانے کس کی ایما پر پرچم لگانے کی بجائے درخت لگانے کی مہم کا بھی زور رہا جس کی وجہ سے شاید اس بار زیادہ لوگوں نے گھروں اور دکانوں پر پرچم نہیں لہرائے۔ ورنہ پہلے تو پرچموں کی زیادہ بہار ہوتی تھی۔ ’’پاں نہیں چھاں‘‘ والے سلوگن کے تحت درخت بھی نہیں لگے۔ درختوں کی چھاں اپنی جگہ پرچم لہرانے میں کنجوسی درست نہیں۔ ہمیں یوم آزادی پر اپنے گھروں، دفاتر ، دکانوں پر قومی پرچم لہرا کر یہ ثابت کرنا چاہیے کہ
چاند روشن چمکتا ستارہ رہے
سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے
٭٭٭٭٭
افغان صورتحال المناک، کیا آپ کو میری یاد آ رہی ہے۔ ٹرمپ
جی ہاں ٹرمپ کی یاد تو آتی ہو گی۔ ان سب کو جنہوں نے ٹرمپ کے ساتھ مل کر افغانستان میں لگی آگ کو مزید بھڑکایا۔ وہاں امن و امان قائم کرنے سے زیادہ اپنی حکومت کو مستحکم بنانے کی کوشش کی۔ اس دوران ہزاروں افغان شہری امریکہ اس کے اتحادیوں اور افغانستان کے حکمرانوں کی انا کے بھینٹ چڑھ گئے۔ ٹرمپ کی تو کوشش یہی تھی کہ افغانستان میں امریکی تسلط برقرار ہے اور وہاں اس کی کٹھ پتلیاں حکومت کر کے ملک کا مزید بیڑا غرق کریں۔ ویسے سچ کہیں تو صرف اشرف غنی، حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ جیسے امریکی پٹھوئوں کو ٹرمپ کی یاد آتی ہو گی اور انہوں نے شاید اپنی گاڑیوں کے پیچھے ٹرمپ کی تصویر کے ساتھ
تمہیں کھو دیا ہم نے جانے کے بعد
تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
لکھوا بھی لیا ہو۔ جوبائیڈن نے جو فیصلہ کیا امریکی فوجیوں کے انخلا کا وہ آج نہیں توکل ہونا ہی تھا۔ 20 سال میں انسان بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔ سو امریکیوں نے بھی افغانستان کی جنگ میں سیکھ لیا ہو گا کہ کسی ملک پر جبری قبضہ اور وہاں من مرضی کی حکومت بنانا اسے قائم رکھنا درد سری ہے جس کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے ۔
٭٭٭٭٭
عالمی برادری بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھائے۔ انڈین امریکن مسلم کونسل
بھارتی یوم آزادی پر بھارت کے لئے یہ امریکی مسلمانوں کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔ جس میں انہوں نے بھارتی مسلمانوں کی حالت زار پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اپنی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارت کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کرے جہاں مذہبی آزادی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ انڈین امریکن مسلم کونسل نے عالمی برادری سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ سب سے بڑے نام نہاد جمہوری ملک ہونے کے دعویدار ملک کی اصل صورتحال پر آنکھیں کھولے اور وہاں انسانی حقوق کی پامالی کی مذمت کرے مگر کیا کیا جائے۔ عالمی برادری بڑی بھارتی جمہوریت اور بڑی تجارتی مارکیٹ کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ تجارتی مفادات آج کل انسانی حقوق سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کوئی بھی ملک ڈیڑھ ارب انسانوں کی اس منڈی کو ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتا۔ اسی کمزوری کا فائدہ بھارت اٹھا رہا ہے اور بھارتی مسلمانوں کی زندگی وہاں کی متعصب انتہا پسند ہندو حکمرانوں نے اجیرن بنا دی ہے۔ کبھی گائے کے ذبح پر کبھی اذان کی آواز پر جب اور کوئی بہانہ نہیں ملتا تو کسی مسجد کو اپنی مذہبی عمارت کو گرا کر بنانے کا جھوٹا الزام لگا کر مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ سب سے بونگا الزام ’’لو جہاد‘‘ ہے کہ مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر ان سے شادی کر کے انہیں مسلمان بنا لیتے ہیں۔ ان باتوں کی آڑ لے کر پورے بھارت میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔ بلکہ اب تو مسلمان لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کی جبری ہندو لڑکوں سے شادی کرانے کی مہم بھی زوروں پر ہے۔ یہ بذات خود بڑا جرم بھی ہے ظلم بھی۔ مگر بھارت کے حوالے سے یہ سب ممالک بندروں کی طرح آنکھ منہ اور کان پر ہاتھ رکھے نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ہرات میں طالبان جنگجو شہر فتح کرنے کے بعد پلے لینڈ میں ڈاجم کاروں میں کھیلتے رہے
جی ہاں یہ تصویراخبارات میں شائع ہوتی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے مسلح جنگجو کیسے بچوں کی طرح ان ڈاجم کاروں میں ہنستے کھیلے ہوئے آپس میں ٹکریں مار رہے ہیں۔ انسان انسان ہی ہوتا ہے چاہے وہ جنگجو ہو یا عام شہری ۔ انسان کے اندر چھپا بچہ کبھی بھی نہیں مرتا۔ بس اندر دبکا رہتا ہے۔ طالبان بھی انسان ہیں۔ صاحب اولاد بھی۔ ان کے اندر چھپا ہوا بچہ بھی ہرات کے پلے لینڈ میں اچانک اچھل کر باہر آ گیا جہاں انہوں نے خوب جھولے جھولے اور سپر ڈاجم کاروں میں بیٹھ کر بچوں کی طرح خوب دھماچوکڑی مچائی۔ ایک دوسرے کو ٹکریں ماریں یوں ایک لمحے کے لیے سب بھول گئے کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں۔ بس ہنستے مسکراتے بچے ہر طرف نظر آنے لگے۔ خدا کرے طالبان کے اندر جاگنے والا یہ بچہ کبھی بھی کہیں بھی نہ سوئے۔ پورے افغانستان میں یہ بچہ اپنے جیسے لاکھوں بچوں اور ان کے والدین کو بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ طالبان کو اب رحم عفو اور درگزر سے کام لینا ہو گا۔ سرکار دو عالم ہمارے نبی مکرم نے بھی فتح مکہ کے موقع پر ایسا ہی کیا۔ کابل ، غزنی ، ہرات ، قندھار ، پورے افغانستان کے مرد عورت اور بچے اب طالبان کے اسلامی پرچم تلے آ چکے ہیں تو ان کی جان مال عزت اور حرمت کا تحفظ بھی طالبان کی ذمہ داری ہے۔