• news
  • image

افغانستان میں طالبان کو اقتدار کی منتقلی

افغانستان میں صورتحال ناقابل یقین حد تک تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ افغانستان پر حکمرانی کیلئے آنے والے اب وہاں سے فرار ہورہے ہیں۔ شمالی اتحادبھی ایک حقیقت تھی اس کا بھی اب وجود نظر نہیں آتا۔ اشرف غنی کے کچھ وزرا راہ فرار اختیار کرگئے ہیں۔ رشید دوستم سے کچھ حلقوں کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں وہ ہمیشہ طالبان کیلئے ایک سخت حریف ثابت ہوا اب اس کے اعصاب بھی جواب دے گئے ۔ اس نے بھی افغانستان سے بھاگنے میں عافیت جانی ۔
افغان میڈیا کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طالبان کو اقتدار منتقل کرنے کیلئے علی احمد جلالی کو عبوری وزیراعظم مقرر کیا جارہا ہے۔ کابل کے صدارتی محل میں طالبان کے ساتھ معاملات طے پارہے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ ثالث کے فرائض ادا کررہے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے طالبان سے پہلے ہی کابل میں موجود اپنے سفارتکاروں کے تحفظ کی اپیل کی گئی ہے۔ امریکہ کی طرف سے اپنے عملے کو کابل سے نکالنے کیلئے بڑا آپریشن تشکیل دیا ہے ۔ سفارتکاروں کو حساس دستاویزات اور آلات جلانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس میں شاید اب تاخیر ہوگئی ہے۔ امریکی اب طالبا ن کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ امریکیوں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں۔اپنا وجود کھوتی ہوئی افغان حکومت اور طالبان کے مابین معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت طالبان کابل پر حملہ نہیں کریں گے۔ ان خبروں کی تصدیق قائم مقام افغان وزیر داخلہ عبدالستار مرزکوال کی طرف سے کی گئی ہے۔
امریکہ کی طرف سے افغان فوج کی تربیت اور جدید اسلحہ کی فراہمی پر ایک سو ارب ڈالر سے زائد خرچ کئے گئے۔ تین لاکھ نیشنل گارڈز کیل کانٹے سے لیس کئے گئے جو اب کہیں نظر نہیں آتے۔ جنہوں نے جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کرنا تھا وہ گرم ہوا کی تپش دیکھ کر ملک سے ہی فرار ہوگئے بہت سے طالبان کے ساتھ مل گئے۔ طالبان کے مقبوضات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان کی کابل کی طرف پیش قدمی جاری تھی۔ پل چرخی جیل پر طالبان نے تسلط حاصل کرلیا ہے۔ اس جیل میں ہزاروں کی تعداد میں وہ قیدی ہیں جن کو اشرف غنی انتظامیہ نے رہا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ پل چرخی جیل پر قبضے کا مطلب کابل میں طالبان کی عملداری کی ابتداء ہے۔
کل تک افغانستان میں خانہ جنگی ہورہی تھی اور اس کے اختتام کی کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی تھی۔ اشرف غنی حکومت طالبان کیخلاف فضائی حملے جاری رکھے ہوئے تھی یہی ایک اس کا ہتھیار تھا جس کا طالبان کے پاس توڑ نہیں تھا۔ افغانستان میں غنی انتظامیہ کے ہاتھ سے بہت کچھ نکلا تو اس کی فضائیہ بھی بکھر گئی جس سے طالبان کی کامیابی کے راستے مزید استوار ہوگئے۔ افغان حکومت صرف امریکہ اور نیٹو کی بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ وہ ہٹ گئیں تو حکومت مہینہ بھر بھی نہ نکال سکی۔ طالبان پہلے بھی اقتدار میں آئے تھے اس وقت یہ سیاست سمیت کئی معاملات میں ناتجربہ کار تھے۔اب ان کے پاس پانچ سالہ اقتدار میں رہنے کا تجربہ ہے۔ کئی ممالک کے ساتھ ان کے روابط ہیں۔ برطانیہ ،امریکہ اور کئی ممالک اپنا سفارتی عملہ واپس بلا رہے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ ، ڈنمارک اور ناروے کابل سے اپنے سفارتکار واپس لے گئے ہیں۔ بھارت تو گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح افغانستان سے غائب ہوا ہے۔ چین اور روس سمیت کئی ممالک نے اپنے سفارتی عملے کو کابل میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین سے طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ چین ایسا کرتا ہے تو بہت سے دیگر ممالک بھی اس کی تقلید کریں گے۔
طالبان طاقت کے بل بوتے پر کابل کو تسخیر کرتے تو خونریزی کے خدشات بڑھ جاتے۔ اب ان کو اقتدارایک معاہدے کے تحت منتقل ہورہا ہے جس سے خانہ جنگی کے بڑھتے خطرات بھی کم ہوگئے ہیں۔ طالبان کی طرف سے عام معافی کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ وہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر کاربند رہنے کا بھی اعلان کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے امریکی مفادات پر حملے نہیں کئے گئے۔ ملا عبدالغنی برادر دوحا سے کابل پہنچ گئے ہیں جس سے اشرف غنی کے زیرکنٹرول افغان میڈیا کے مطابق اقتدار کی پرامن منتقلی ہوسکے گی۔
امریکہ کی طرف سے انخلاء سے قبل افغانستان میں سیاسی سیٹ اپ کی تشکیل نہ کرکے جس بلنڈر کا ارتکاب کیا گیا تھا اس کے بھیانک نتائج کا خدشہ تھا مگر اب حالات جس سمت کروٹ لے رہے ہیں ان کو افغانستان اور خطے کے امن کیلئے حوصلہ افزاء قرار دیا جاسکتا ہے۔ اقتدار کی پرامن منتقلی سے افغانستان سے پڑوسی ممالک میں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد میں داخلے کے خدشات بھی ختم ہوگئے ہیں۔ معاملات اسی طرح امکانی طورپر پرامن طریقے سے طے پاتے رہے تو پاکستان میں موجود 30 لاکھ مہاجرین کو واپس بھیجا جاسکے گا۔ آج افغانستان میںامن کے قیام کے جو امکانات روشن ہورہے ہیں اس میں پاکستان کا اہم ترین کردار رہا ہے۔ پاکستان کے بدخواہ آج بھی اس کیخلاف بروئے کارہیں۔ ان کی سازشوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ درست سمت میں جاتے حالات کو ڈی ٹریک کرنے کی ہرممکن کوشش، سازش حربہ اور ہتھکنڈا اختیار کریں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن