خود نوشت
کل 19 اگست کو میری 75 ویں سالگرہ ہے۔ پون صدی گزارنے کے بعد یہ سوچ ضرور آتی ہے کہ بہتر زندگی گزارنے کی خواہش کے باوجود بات وہیں کی وہیں ہے۔ ذہن پر اس کا کڑوا سا اثر تو ہے۔ علم نہیں کہ باقی زندگی میں اس کڑواہٹ میں اضافہ ہونا ہے یا کمی؟ والد محترم ظہور الدین بھٹی نے اپنی ڈائری میں میری تاریخ پیدائش یہ لکھی ہے۔ 19 اگست 1946ء مطابق 11 رمضان المبارک بروز جمعہ مگر سکول میں داخلے کے وقت 26 فروری 1947ء لکھائی گئی اور یہی تاریخ پیدائش، میٹرک کے سرٹیفکیٹ اور شناختی کارڈ پر لکھی گئی۔ مختلف تاریخ پیدائش لکھانے کی وجہ میں والد صاحب سے دریافت نہ کر سکا۔ وہ جلالی طبیعت کے مالک تھے۔ میرے والد کی شادی یکم جولائی 1945ء میں ہوئی اور وفات 11دسمبر 1974ء میں یعنی میری شادی کے دس ماہ بعد۔ میری شادی 22 فروری 1974ء کو جمعہ کے روز ہوئی۔ جس روز لاہور میں اسلامی کانفرنس تھی۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت تھا۔ میری والدہ زہرہ بیگم کی بیس سال کی عمر میں شادی ہوئی۔ شادی کے 14برس بعد 34 سال کی عمر میں 13 جنوری 1959ء کو وفات پا گئیں۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں۔ اس وقت میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ والد صاحب اس وقت 34 برس کے تھے۔ ان کا راشن کا ڈپو تھا۔ انھوں نے دوسری شادی نہیں کی۔
حضرت اویس قرنیؒ سے کسی نے پوچھا۔ آ پ کو اللہ تعالیٰ نے بلند مرتبے سے نوازا ہے۔ آپ نے کون سے وظائف کیے ہیں، ہمیں بھی بتائیے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے کوئی وظائف نہیں کیے، میں نے ساری زندگی صرف ماں کی خدمت کی ہے۔
ماں کے لیے میری نظم ہے:۔؎
توں سیں ساڈے سراں تے چھاں
پر تیرے مر جان دے مگروں
کوئی نہیں، ایس جگ دے اُتے
جیہڑا دیوے چھاں
دُھپاں دے وچ پیر نیںسڑدے
کتھوں لیاواں ہن اوہ جنت
دل دی ٹھنڈک
میں تے تیرے کچھڑے پلیا
ول بولن دا سکھیا
نالے سدھے رستے اُتے ٹرنا سکھیا
توں سیں میری ماتا
موت کدے وی توڑ نہیں سکدی
تیرا میرا ناتا
والدہ کی وفات کے وقت میں مسلم ماڈل ہائی سکول (اردو بازار) کا طالب علم تھا۔ ہماری رہائش ہجویری محلہ (عقب داتا گنج بخش) میں تھی۔ داتا گنج بخشؒ کے مزار کے سامنے سے گزر کر کربلا گامے شاہ کے راستے سے باہر نکلتا تو ساتھ ہی سنٹرل ماڈل سکول ہے۔ سڑک پار کر کے مسلم ماڈل ہائی سکول پہنچ جاتا۔ اب کربلا گامے شاہ کے اندر سے گزرنا تو دور کی بات ، داتا گنج بخشؒ کے مزار تک پہنچنے کے لیے چیکنگ کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایم اے عزیز، مسلم ماڈل ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق، ایم اے عزیز کے صاحبزادے تھے۔ ایم اے عزیز کی رہائش گاہ قلعہ لچھمن سنگھ میں تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ اپنے بیٹے ڈاکٹر محبوب الحق کے پاس اسلام آباد چلے گئے۔ 1993ء میں وہیں انتقال کر گئے۔ البتہ ان کی تدفین لاہور میں ہوئی۔ مسلم ماڈل ہائی سکول میں محمد اسحاق میرا کلاس فیلو تھا۔ جو ازاں بعد محمد اسحاق ڈار کے نام سے معروف ہوئے اور وزیر خزانہ کے عہدے تک پہنچے۔ محمد اسحاق ڈار کی آبائی رہائش چونا منڈی میں تھی ۔ سکول کے زمانے میں وہ ہمارے آبائی گھر اور میں اس کے گھر اکثر جاتا کرتا۔ طارق فاروق بھی میرا اور اسحاق ڈار کا کلاس فیلو تھا۔ بی اے کے بعد یہ صحافت سے وابستہ ہو گیا۔ روزنامہ جہاں نما کے نام سے اخبار شائع کرتا رہا۔ اس اخبار کے بانی اس کے والد شریف فاروق تھے جو پشاور میں شفٹ ہو گئے اور وہاں سے روزنامہ جہاد کا اجرا کیا۔ طارق فاروق ’’نوائے وقت‘‘ میں کالم بھی لکھتے رہے۔ طارق فاروق کی رہائش اور اخبار کا دفتر بیڈن روڈ پر تھا۔ وہیں اس کی وفات ہوئی۔ جناب مجید نظامی نے طارق فاروق کی نماز جناہ میں شرکت کی۔ ان دنوں طارق فاروق کے والد شریف فاروق حیات تھے۔ سعید احمد بھی ہمارا کلاس فیلو رہا جو میاں نواز شریف کے دور حکومت میں ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک اور ازاں بعد نیشنل بینک کا صدر رہا۔ یہ عہدے اسے محمد اسحاق ڈار سے دوستی کی وجہ سے حاصل ہوئے۔ اب وہ اپنے دوست کی منی لانڈرنگ کے سلسے میں کیس بھگت رہا ہے۔
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارا