جمہوریت کا پاسبان عبدالرشید قریشی
پاکستان کی تاریخ میں 1977وہ بدترین سال تھا جب وطن عزیز کو دہشت گردوں اور منشیات کی سپلائی کی عالمی منڈی بنادیا گیا یہ کام اس عالمی ایجنڈے کا حصہ تھا جس کے تحت مغرب نے اپنے خلاف ابھرتی ہوئی روس کی طاقت (جو پہلے ہی ایٹمی طاقت بھی تھا)کے علاوہ تیسری دنیا یہ لفظ بھی اسوقت دنیا کی زبان پر آیا جب اسکی لیڈرشپ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں اقوام عالم میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئی،بھٹو نے پاکستان لیبیا سعودی عرب فلسطین الجزائر جیسے ممالک میں جو اسوقت دنیا کی بہت بڑی ضرورت تیل کی دولت سے مالامال تھے اور انہوں نے امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کو اپنے مطالبات سے آگاہ اور منوانے کا عمل شروع کیا یہ عمل ان تمام ترقی پذیر ممالک کی ترقی کا زینہ تھا،اس عمل کو روکنے کیلئے امریکہ سمیت کئی ممالک کے ایک گروپ نے سعودی عرب کے شاہ فیصل لیبیا کے معمر قذافی فلسطین کے یاسر عرفات پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹانے کی تیاری شروع کردی ان ممالک مین لاقانونیت بدامنی پیدا کرنے کی سازش پر عمل شروع کیا سب سے پہلے 1975ء میں شاہ فیصل قتل ہوئے پھر ذوالفقار علی بھٹو کو انتخابات میں دھاندلی پھر نظام مصطفے کے نفاذ کی تحریک شروع کروائی فوجی مداخلت کو سپورٹ کیا گیا۔
اربوں ڈالر کے بدلے میںملک کو تباہی کی جانب دھکیل دیا گیا ‘یاسر عرفات کو بھی 2004میں مبینہ طور پر زہر دیکر ہلاک کیا گیا جب کہ کرنل قذافی سب سے زیادہ مزاحمت کی وہ بھی 2011میں قتل کردئیے گے یوں اسلامی اور ترقی پذیر ممالک کو جن کی سربراہی پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کررہے تھے اندھیرے غار کی جانب دھکیل دیا گیا پاکستان آج تک اس بدامنی دہشت گردی اور منشیات کا شکار ہے۔ جنرل ضیا اور اسکے ساتھیوںنے جو آگ بھڑکائی اسکے شعلے ہر چیز کو جلا کر خاکستر کرچکے ہیں ملک میں سیاسی جماعتوں کو تقسیم کرکے اپنے پسندیدہ گروپ بنائے گئے‘ مذہبی جماعتوں سے مسلح جتھے تیار کئے گئے جنہوں نے پاکستان ہی نہیں افغانستان بوسنیا چیچنیا تک نام روشن کیا عروس البلاد کراچی کو لسانی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کیا جن کے اثرات آنے والی کئی نسلیں بھگتے گیں
بھٹو کے بعد جمہوریت کو گیارہ سال کیلئے قید ہوگئی۔
پھر بیگم نصرت بھٹو بینظیر بھٹو نوابزادہ نصراللہ خاں نے حالات کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کے ایک اتحاد بنایا جاے جو جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کرے اور ملک پر مسلط سیاہ رات سے نجات دلاے ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ماسواے جماعت اسلامی کے اس مشترکہ نکات پر متحد ہو گئیں۔ اس قافلے میں خاں عبدالولی خان ملک محمد قاسم مولانا فضل الرحمان ائرمارشل اصغر خان رسول بخش پلیچو فاضل راہو جام ساقی فتح یاب خان جیسے بڑے لوگ شامل تھے ۔ نواب زادہ نصراللہ خان کے ساتھ عبدالرشید قریشی بھی شامل تھے ۔
قریشی کا پورا خاندان جمہوری جدوجہد میںشامل تھا انکے بڑے بیٹے اعجاز رشید طلبہ سیاست میں سرگرم تھے اور ہمارے ساتھ جدوجہد کی صف اوّل میں کھڑے تھے ۔اعجاز قریشی نے ضیاء مارشل لاء کے بعد پنجاب پولیس میں شمولیت اختیار کی۔اعجاز نے وہاں بھی اپنا انصاف اور لوگوں کے حقوق کیلئے اپنی کارروائیاں جاری رکھی۔ان کی تحقیق اور تفتیش کی زد میں سانحہ ماڈل ٹائون بھی شامل تھا، جبکہ رشید قریشی اور انکے احباب کا کہنا تھا کہ اعجاز کو ایک سازش کے تحت قتل کیا گیا۔جس کی تحقیقات کیلئے وہ طویل عرصے سے سرگرداں تھے۔
رشید قریشی اور چوھدری لیاقت حسین وڑائچ نے سیاسی اسیران رہائی کمیٹی بنائی ( اور بعد میں عدلیہ بچائو کمیٹی بھی ان کی قیادت میں کام کرتی رہی۔ جس کی سرپرستی ملک محمد قاسم رفیق احمد شیخ جسٹس ملک سعید حسن رفیق چوہان جیسی سرکردہ شخصیات کررہی تھیں لاہور ہائی کورٹ کا بوڑھ کا درخت ضیائی مارشل لا کے خلاف ساری جدوجہد کا عینی شاہد اصل سایہ اور پہرہ دار تھا عبدالرشید قریشی اس سارے دور میںیا جیل میں ہوتے یا جلسہ جلوس کی تیاری میں۔ 1982ء میں سیاسی اسیران کی رہائی کیلئے ہائی کورٹ کے اس بوڑھ کے درخت کے سایہ میں عبدالرشید قریشی نے دس روز تک بھوک ہڑتال کی گیارویں روز جب مارشل لا حکام کو خطرہ محسوس ہواکے کہیں قریشی صاحب جان ہی نا دیدیں انہوں نے وکلا سمیت ان سیاسی کارکنوں کو رہاکرنے کا اعلان کیا مگر جب تک گرفتار افراد کو ہڑتالی کیمپ پر نہیں پہنچایا گیا انکی ہڑتال جاری رہی مجھے قریشی صاحب کے پاس بیٹھنے کا بہت موقع ملا وہ بہت صاف گو اور بہادر انسان ہیںہارون آباد سے لاہور اور مارشل لا کیخلاف جدوجہد میں انکی ساری جائیداد سیاست کی نذر ہوگی کچھ زرعی زمین ہارون آباد کے تین مکانات کے علاوہ کچا فیروزپور روڈ پر ایک تاریخی مکان جس کی اوپر والی منزل پر ایک کمرہ چوھدری لیاقت حسین وڑائچ کیلئے وقف تھا وہ بھی اسی جدوجہد کی نذر ہوا آجکل رشید قریشی گلشن راوی میں کرایہ کے گھرمیں رہائش پذیر ہیں۔ انکے دوسرے بیٹے امتیاز رشید بھگت سنگھ فاونڈیشن کے روح رواںہیں اور انصاف آزادیوں کا علم اٹھائے کھڑے ہیں رشید قریشی کی شکل میں جو شمع روشن تھے اور انکے دم سے کچھ نہ کچھ زندگی اور روشنی باقی تھی۔