ادارے کا اتحاد اہم، چیزیں تباہ کرنا آسان، بنانا مشکل: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ادارے کا اتحاد اور اس پر اعتماد سب سے اہم ہے۔ سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربرا ہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے موقف اپنایا کہ عدالتی حکم پر اپنی رائے دینے سے پہلے کچھ وضاحت دینا چاہتا ہوں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ایک خط لکھا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک بینچ دوسرے بینچ کے احکامات پر اپنا حکم نہیں دے سکتا۔ میرے خیال سے یہ مانیٹرنگ بینچ نہیں ہے۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا سب سے اہم سپریم کورٹ کا وقار اور اس کا اتحاد ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہمارا سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے حکم میں مداخلت کا ارادہ نہیں۔ دو رکنی بینچ کے حکم سے ایک مشکل سامنے آئی جس کا تدارک ضروری ہے۔ اگر کوئی مناسب وجہ نہ ہوئی تو یہ کیس دوبارہ دو رکنی بینچ کے سامنے چلا جائے گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ادارے پر اعتماد نہ کرنا بھی ایک اہم پہلو ہے۔ چیزوں کو تباہ کرنا آسان ہے لیکن بنتی بہت مشکل سے ہیں۔ اگر کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا تو نظام نہیں چل سکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا چیف جسٹس کا اختیار ہوگا ازخود نوٹس کس بنچ کو اور کب مقرر کرنا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ جس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں وہ دو رکنی بنچ کی سفارش تھی۔ نوٹس لینے کی سفارش کے بعد تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، اور خاص بات یہ ہے کہ تین رکنی بنچ میں سفارش کرنے والا کوئی جج شامل نہیں تھا۔ جسٹس قاضی محمد امین نے استفسار کیا کیا چیف جسٹس بنچ کی سوموٹو لینے کی سفارش رد کر سکتے ہیں؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا چیف جسٹس کسی جوڈیشل آرڈر سے انکار نہیں کرسکتے، تاہم کیس کب اور کس بنچ میں مقرر کرنا ہے یہ چیف جسٹس کا اختیار ہے، مرضی کے جج کے سامنے کیس لگوانے کا رجحان تباہ کن ہے، انصاف ایسی چیز نہیں کہ مرضی کی دکان سے شاپنگ کی جائے۔ اٹارنی جنرل نے دلائل مکمل کر لئے جس کے بعد عدالت نے مزید سماعت آج جمعرات تک ملتوی کر دی۔علاوہ ازیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک خط میں ازخودنوٹس کے دائرہ اختیار اور تعین کے لیے قائم بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا ایک بینچ دوسرے بینچ کی مانیٹرنگ نہیں کر سکتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے صحافیوں کو ہراساں کئے جانے سے متعلق لئے گئے از خود نوٹس کیس میں پانچ رکنی بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پانچ رکنی لارجر بینچ بنانے سے قبل دو رکنی بینچ کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ پانچ رکنی بینچ کو یہ مقدمہ سننے کا اختیار ہی نہیں۔ اگر پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت جاری رکھی تو یہ آئین سے انحراف ہوگا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ جو سرکاری ملازم ہے وہ بلاشبہ خود کو ایک منصف اور آئینی ماہر سمجھتا ہے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے فوری طور پر نوٹس لیا اور چھ صفحات پر مشتمل نوٹ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔ ایک بینچ کا دوسرے بینچ کی مانیٹرنگ کرنا غیرآئینی ہے۔ اگر ایک بینچ دوسرے بینچ کی مانیٹرنگ شروع کردے تو اس سے نظام عدل زمین بوس ہو جائے گا۔ ماضی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سماعت کے دوران بینچ میں موجود اپنے ہی جج کو نکال کر نیا بینچ تشکیل دیا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے بعد میں الگ حکم نامہ جاری کیا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس معاملے پر تاحال غور نہیں کیا گیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا مزید کہنا ہے کہ ایک مرتبہ نامعلوم نمبر سے وصول ہونے والے وٹس ایپ میسیج پر ازخودنوٹس لیا گیا۔ وٹس ایپ ازخود نوٹس کی وجہ سے قومی خزانے کو 100 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ریکوڈک کیس میں پاکستان کو عالمی مقدمہ بازی کا سامنا کرنا پڑا اور 6.4 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا۔